ریاست نے راجی مُچی مذاکرات کے تمام نکات پامال کردیئے – بلوچ یکجہتی کمیٹی

57

ریاست نے راجی مُچی کے مذاکرات کے تمام نکات کو پامال کر کے واضح کر دیا کہ وہ بلوچستان میں صرف طاقت اور تشدد پر انحصار کرتی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی

‏‎بیان میں کہا گیا ہے کہ جولائی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے گوادر میں بلوچ نسل کشی کے خلاف راجی مُچی کا انعقاد کیا گیا۔ اس پرامن اجتماع کو کچلنے کے لیے ریاست نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا، لیکن جب اس میں ناکامی ہوئی تو آل پارٹیز نے ثالثی کے ذریعے مذاکرات کی کوشش کی۔ نوشکی میں مظاہرین پر ریاستی جبر کے بعد یہ مذاکرات ناکام ہو گئے۔ بعد ازاں، صوبائی وزراء کی سربراہی میں ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے دھرنا ختم کرنے کے بدلے درج ذیل مطالبات پر عمل کرنے کا وعدہ کیا:

‏1. ‎ تمام گرفتار مظاہرین کو رہا کرنا۔
2. تمام ایف آئی آر کا خاتمہ۔
‏3. ‎ایف سی کے خلاف فائرنگ اور قتل کا مقدمہ درج نا ہونے کے سبب بی وائی سی سیاسی تحریق و قانونی چارہ جوئی کا حق رکھنا۔
‏4. ‎ریاستی تشدد کی وجہ سے ہونے عوامی مالی نقصانات کا ازالہ کرنا۔
‏5. ‎مستقبل میں کسی بھی پر امن اجتماع پر ریاستی اداروں کی جانب سے کسی قسم کے طاقت کا استعمال نا کرنا۔
‏6. ‎مستقبل میں راجی مچی کے حوالے سے کسی بھی شہری کو ہراساں نا کرنا ۔
‏7. ‎ تمام شاہرائیں کھول کر نیٹورک بحال کرنا۔

“‏‎مذاکراتی نکات میں سے صرف مظاہرین کی رہائی پر عمل درآمد کیا گیا، لیکن دیگر تمام مطالبات کو تین ماہ گزرنے کے باوجود نظر انداز کر دیا گیا۔ نہ شہداء کے قاتلوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی، نہ عام شہریوں کے نقصانات کا ازالہ ہوا، اور نہ ہی ضبط شدہ سامان کی واپسی ہوئی۔”

بیان میں کہا گیا کہ اس کے برعکس پرامن مظاہرین، انسانی حقوق کے کارکنان، اساتذہ، طلباء، اور جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین کو مسلسل ہراساں کیا جارہا ہے۔ جعلی ایف آئی آرز کے ذریعے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، سینکڑوں افراد کو فورتھ شیڈول میں شامل کر کے ان کی زندگیوں کو مزید مشکلات میں ڈال دیا گیا ہے، اور ان کی نگرانی اور پروفائلنگ کی جا رہی ہے۔

“‏‎حالیہ مہینوں میں ریاستی تشدد اور جبری گمشدگیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ صرف پچھلے مہینے سو سے زائد بلوچوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، جن میں اکثریت طلباء کی تھی۔ مزید برآں، نام نہاد اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان میں ایک اور فوجی آپریشن کا اعلان کیا گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پچھلے ستر سالوں میں بلوچستان میں فوجی کارروائیوں کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا۔ تعلیم، صحت، روزگار، اور انصاف کے بدلے بلوچستان کے عوام کو جبری گمشدگیوں، قتل و غارت، اور جبری بے دخلیوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔یہ سب ریاستی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جنہوں نے بلوچستان کو بدترین انسانی بحران کی جانب دھکیل دیا ہے۔”

‏‎بیان میں کہا گیا کہ ریاست نے ہمیشہ دھوکہ دہی اور تشدد کے ذریعے بلوچ عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔ نواب نوروز خان کے ساتھ قرآن پر معاہدے سے لے کر حالیہ راجی مُچی مذاکرات تک، ہر بار وعدہ خلافی کی گئی۔ بلوچ راجی مُچی کے نکات کو پامال کر کے ریاست نے دنیا کے سامنے یہ ثابت کر دیا کہ وہ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں بلکہ صرف جبر اور طاقت کے استعمال پر یقین رکھتی ہے