ریاست جبری گمشدگی جیسے مخصوص پالیسی کے تحت بلوچ طلباء پر مظالم کی مثال قائم کرچکا ہے۔بی ایس سی

80

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ریاست جبری گمشدگی جیسے مخصوص پالیسی کے تحت بلوچ طلباء پر مظالم کی مثال قائم کرچکا ہے۔ بلوچ طلباء کے ساتھ ریاستی غیر آئینی اور غیر انسانی سلوک اپنی تمام حدود پار کر چکی ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچ طلباء کی ماورائے عدالت جبری گمشدگی، پروفائلنگ اور ہراسمنٹ جیسے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کا تسلسل نہایت تشویشناک ہے۔ 28 فروری 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ طلبہ کی بازیابی کی سماعت میں انوار الحق کاکڑ کی پیشی کے بعد بلوچ طالبعلم امتیاز علم کی جبری گمشدگی اور گذشتہ روز انوار الحق کاکڑ کے اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کے دورے کے بعد دس بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی بھی اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔

ترجمان نے کہا گذشتہ روز راولپنڈی میں واقع بلوچ طلباء کے فلیٹ پر ریاستی سیکورٹی اداروں نے چھاپہ مار کر وہاں موجود تمام طلباء کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔ جبری لاپتہ افراد میں نمل یونیورسٹی اسلام آباد کے 10 طالبعلم سلیم عارف، بالاچ فدا، خدا داد، خلیل احمد، خلیل اقبال، حمل حسنی، بابر عطا، نور مہیم، افتخار عظیم اور احسام اکبر شامل ہے۔ بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیاں ایک دہائی سے جاری ہے جس کے باعث بلوچ طلبا ایک خوف کے ماحول میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہے۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچ شناخت کو بنیاد بناکر بلوچ طلباء کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بطور قوم ہمیں اجتماعی طور پر اس صورت حال کو سمجھنے اور اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے ریاست کی طرف سے ہمیں اجتماعی سزا کے تحت خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ہمارا زندہ رہنے اور سانس لینے کا واحد راستہ اجتماعی مزاحمت میں پوشیدہ ہے۔ جلد بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کے جانب سے پریس کانفرنس میں آئندہ کا لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔