حکومت مخالف عسکریت پسندوں کا شام کے شہر حلب پر برق رفتار حملہ، شدید لڑائی

12

شام میں حکومت مخالف عسکریت پسندوں نے غیرمعمولی طور پر حملہ کر کے حلب شہر تک ایک بار پھر رسائی حاصل کی ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق مقامی عسکریت پسند اور اور اُن کے ترک اتحادی جنگجوؤں نے برق رفتاری سے حلب شہر پر حملہ کر کے ایران اور روس کی حمایت یافتہ شامی حکومت کی افواج کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی۔

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق یہ گزششتہ کئی برسوں میں ہونے والی جنگ کے دوران سب سے مہلک ترین لڑائی ہے جس میں 255 افراد مارے گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر جنگجو تھے تاہم 24 شہری بھی شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر روسی فضائیہ کے حملوں میں مارے گئے۔

یہ لڑائی بدھ کو اُسی دن شروع جب اسرائیل اور ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے درمیان پڑوسی ملک لبنان میں عارضی جنگ بندی عمل میں آئی۔

برطانیہ میں قائم شام کے آبزرویٹری گروپ کے مطابق جمعے تک عسکریت پسندوں اور ان کے اتحادیوں نے شمال میں 50 سے زائد قصبوں اور دیہاتوں کا کنٹرول سرکاری افواج سے چھین لیا تھا جو برسوں بعد حکومت کے سب سے بڑے نقصان میں سے ایک ہے۔

جنگجو اس کے بعد حلب کے مغربی اضلاع میں داخل ہوئے، یہ شہر تقریباً 20 لاکھ افراد پر مشتمل ہے جو شام کا جنگ سے پہلے مینوفیکچرنگ کا مرکز تھا۔

جنگی مانیٹر نے کہا کہ حیات تحریر الشام اور اس کے اتحادی دھڑے، الحمدانیہ کے علاقے اور نیو حلب کے محلوں کے مضافات میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اس سے پہلے اس علاقے میں دو خودکش حملے کر کے راستہ بنایا گیا۔

شام کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا کہ القاعدہ کی سابق شامی شاخ کے زیر قیادت ایک اسلامی اتحاد حیات تحریر الشام نے شہر میں طلبا کی رہائش گاہ پر گولہ باری کی جس میں چار شہری ہلاک ہو گئے۔

آبزرویٹری گروپ کے مطابق شامی اور روسی جنگی طیاروں نے ادلب کے ارد گرد عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر شدید فضائی حملے کیے ہیں۔

ایک شامی سیکورٹی اہلکار نے حساس معاملات پر بات کرنے کے لیے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ فوج کی کمک حلب پہنچ گئی ہے۔

فوج کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فوجیوں نے شہر پر حملے کو پسپا کر دیا ہے اور کچھ پوزیشنیں دوبارہ حاصل کر لی ہیں۔

اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور نے کہا کہ پُرتشدد واقعات کی وجہ سے 14,000 سے زیادہ شہری جن میں سے تقریباً نصف بچے ہیں، بے گھر ہو چکے ہیں۔

حلب کے رہائشی 51 سالہ سرمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ ’میزائلوں اور توپ خانے کی گولہ باری کی آوازیں 24 گھنٹے سن سکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ڈر ہے کہ جنگ چھڑ جائے گی اور ہم دوبارہ اپنے گھروں سے بے گھر ہو جائیں گے۔‘

پیسٹری کی دکان میں کام کرنے والے 36 سالہ ناصر حمدو نے کہا کہ جب سے دشمنی شروع ہوئی تھی وہ خبروں سے چپکے ہوئے تھے۔

آبزرویٹری گروپ نے بتایا کہ جمعرات کو عسکریت پسندوں اور ان کے اتحادیوں نے حلب کو دارالحکومت دمشق سے ملانے والی شاہراہ کو کاٹ دیا جو تقریباً 300 کلومیٹر جنوب میں ہے۔

ناصر حمدو نے کہا کہ ’ہمیں خدشہ ہے کہ سڑکیں بلاک ہونے سے ایندھن کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں اور سامان شہر تک پہنچنے میں رکاوٹ آ سکتی ہے۔‘