حمیدہ بلوچ, تعلیم اور انکی جدوجہد
تحریر: سنگت زکریا شاہوانی
دی بلوچستان پوسٹ
حمیدہ بلوچ اپنی بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہما وقت اعلیٰ تعلیم کے حصول کا خواب دیکھا کرتی تھی، حالانکہ ان کے سامنے مشکلات کے کئی دیواریں کھڑی تھیں۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں پرورش پانے والی لڑکی ، جہاں لڑکیوں کے لیے تعلیم کا اکثر فقدان اور وسائل کی کمی پائی جاتی ہے، جانتی تھی کہ حصول تعلیم کا راستہ قطعاً آسان نہیں ہوگا۔ پھر بھی، خود سے کچھ بننے اور اپنی گاؤں کے دیگر نوجوان لڑکیوں کو متاثر کرنے کی عزم و جستجو نے اُسے آگے بڑھایا۔
آخرکار اس نے آواران سے قریبی شہر لسبیلہ یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کر ہی لیا، اور وہ آزمائشوں، کشمکش سے بھرے اور نئے منزلوں کے حصول کے سفر پر روانہ ہو گئی۔
شروع سے ہی حمیدہ کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنی پڑی۔ روایتی طور پر قدامت پسند معاشرے میں بحیثیت ایک خاتون، ان کی سفر کو وسیع پیمانے پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر ان کی خاندان کے ارکان اور گاؤں والوں کی طرف سے جو اس کے عزائم کو نہیں سمجھ سکے تھے۔ آگے جاکر مالی کشمکش بھی تیزی سے ظاہر ہو نے لگ گئی۔ اس کی خاندان، اگر چہ اخلاقی طور پر معاون رہی، مگر مالی امداد و تعاون فراہم کرنے سے قاصر تھی۔ حمیدہ اکثر ٹیوشن فیس کے انتظام، نصابی کتابیں خریدنے اور زندگی کے بنیادی اخراجات پورے کرنے کے بارے میں فکر مند رہتی تھی۔
میں نے ان تمام تر صورتوں میں ان کی جدوجہد کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کی، اِن مشکل وقتوں میں، اس امر میں رہا کہ انکی کئی نہ کئی کام آؤں اور اپنے بسات کے مطابق انکے ساتھ تعاون کر سکوں تاکہ میں صرف ان کی یادوں میں ایک ہم جماعت نہیں بلکہ ان کی زندگی میں مددگار لوگوں میں سے ایک بنوں۔ وہ جانتی تھی کہ یونیورسٹی کی زندگی کتنی اکیلی اور نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ زندگی کے کئی فیصلہ کن امتحانات سے بھری پڑی ہے، اور وہ اس امر کو بے حد محسوس کر سکتی تھی، پر وہ سہ شیل عورت ان مصیبتوں سے لڑھ جاتی اور اپنے عزائم کمزور نہ ہونے دیتی۔ اور یہی بات متاثر کن ہے کہ حمیدہ جیسی ایک لڑکی جو پہلی بار اپنے آرام دایک دیہاتی زندگی سے دور شہری تھکا دینے والی زندگی سے دوبدو تھی۔
اسی طرح، ان کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول یقیناً مشکلات سے مبرّا نہ تھی۔ لہزا میں نے اپنے ناکس کوششوں سے اس کی مدد کرنا شروع کی، جیسے حمیدہ کو تعلیمی منصوبہ بندی میں مدد کرنا اور دوسرے مضامین میں کشمکش کو دور کرنا شامل تھا۔ لیکن جیسے جیسے وقت گذرتی گئی، وہ مضبوطی کے راستے طے کرتی گئی، وہ اب اپنے مطالعے کے پیش نظر دوسروں کو مدد کی پیشکش کیا کرتی تھی جس کی توقع کوئی زی شعور انسان انکی لگن کو دیکھ کر بہت پہلے کر سکتا تھا۔ وہ اکثر ہم دونوں کے نوٹ اور مطالعہ کے وسائل کا اشتراک کرتی تھی، پیچیدہ تصورات کی وضاحت میں لاتعداد گھنٹے وقف کرتی تھی۔ میں اکثر شک شکوک کے آلم میں کی اس کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ جب حمیدہ کو تعلیمی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا، جیسے کہ امتحان میں ناکام ہونا یا کورس کے موضوعات کو سمجھنے کے میں مشکلات پیش آنا، تو میں بلا جھجک سے اس کی مدد کرتا، اور اسے ہار نہ ماننے کی تاکید کرتا تھا۔
آخر کار، انہوں نے ثابت کر دی کہ عورت بھی اس معاشرے میں تعلیم حاصل کر نے کا حق رکھتی ہے، چائے زندگی اس کے راہوں میں کٹنائی کے امبار کیوں نے لا کھڑا کر دے۔ ان مسائل سے مستقل مزاجی اور صبر سے لڑھ کر جیتا جا سکتا ہے ۔ ان چار مشکل سالوں کے بعد، حمیدہ نے اپنی ڈگری ہاتھ میں لیے گریجویشن مکمل کرلی۔ اور میں اس امر کو محسوس کر سکتا ہوں کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب رہی، نہ جانے کتنی لڑکیوں نے ان سے متاثر ہو کر تعلیمی میدانوں میں چھلانگ لگا دی، اور یہ سست اور زنگ آلود زنجیروں کو اکھاڑ پھینکا، اور اس سفر میں حمیدہ بلوچ نے وہ حاصل کر لیا تھا جو کبھی ناممکن لگتا تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں