“جاری جہد میں سیاسی مزاحمت کے کچھ اور گر! ذوت، ان شاء اللہ” – شفیق الرحمن ساسولی

203

“جاری جہد میں سیاسی مزاحمت کے کچھ اور گر! ذوت، ان شاء اللہ”

تحریر: شفیق الرحمن ساسولی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ کل صرف بشیر بلوچ کی فیک انکائونٹر میں شہادت تک محدود یا پچھلے سال 22 نومبر کو فیک انکائونٹر میں شہید کئے جانے والے شہید بالاچ بلوچ و دیگر شہدا تک بھی نہیں ہے۔ مظالم پر مشتمل بلوچ دشمن کا ایک طویل المدت نسل کش پالیسی ہے جو وقفے وقفے سے پانچ بڑے آپریشنوں اور آٹھ دہائیوں سے روزانہ کی بنیاد پر سرچ آپریشنوں کے نام سے جاری ہے۔ ریاست کی طرف سے بلوچ قوم پر ہونے والے مظالم کی ایک طویل تاریخ ہے۔

چند سطور سرسری تحریر کرنے کی کوشش کرتاہوں کہ کالم طویل نہ ہو اور مدعا دھرا سکوں۔

اغوا اور لاپتہ کرناتو روز بلکہ لمحوں کا معمول ہے، بلوچ قوم پرست، دانشوروں اور عام شہریوں کو ہر روز بڑے پیمانے پر اغوا کیا جاتا ہے اور انہیں لاپتہ کردیا جاتا ہے۔ ان کو اکثر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی بار ان کی لاشیں بھی نہیں مل پاتی ہیں۔ جو لاشیں مل جاتی ہیں وہ فیک انکاؤنٹرز کے زریعے ہی مل جاتے ہیں جبکہ اس طرح کے واقعات میں ریاستی اداروں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ یہ لوگ دہشت گرد تھے اور انہیں انکاؤنٹر میں مارا گیا ہے جبکہ زندانوں میں ذہنی و جسمانی تشدد کرکے مارا جاتاہے پھر لاش پھینک کر انکائونٹر کا نام دیاجاتاہے ان کیلئے تو باقاعدہ بلوچستان میں کولکشن سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جہاں لاپتہ افراد کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھ کے تشدد کیاجاتاہے اور پھر کئیوں کو قتل کیاجاتاہے۔

جب مذکورہ بالا ودیگر ایسے مظالم پر سیاسی کارکن بات کرتے ہیں پر پابندی لگائی جاتی ہے اور سیاسی سرگرمیاں کرنے سے روکا جاتا ہے، میڈیا پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور بلوچ مسئلے پر آزادانہ طور پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اگر کوئی ان پابندیوں کو توڑ کر لب کشائی کرے تو اٹھایاجاتاہے یا ایف آئی آرز کے زریعے انہیں حراساں کرکے کورٹ کچہیریوں میں مصروف کردیاجاتاہے۔

آپریشن کے نام پرسکیورٹی فورسز گھروں کو جلاتے ہیں مال مویشیوں کو لوٹتے ہیں یہ تو کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ کئی ایسے علاقے ہیں کہ کیمپوں میں لوگوں کو بلاکر ان سے مشقتی کام لیا جاتاہے جبکہ ایسے رپورڑس بھی ہیں تفتیش کے نام پر خواتین کو بھی زبردستی کیمپوں میں بلایاجاتاہے۔

بلوچستان میں ایسی صورتحال پیدا کرنے کے بعد بلوچ قوم سے پھر یہ توقع کی جاتی ہیکہ وہ ریاست کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ اس طرح کے ظلم و زیادتیاں یکجہتی نہیں بلکہ نفرت پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے عوام میں ریاست سے جو نفرت ہے اس میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔

اقتصادی عدم مساوات تو 1948 سے لیکر تاحال ایک استحصالی منصوبہ ہے، بلوچستان کے وسائل پر قبضہ کرنے اور ان سے حاصل ہونے والی آمدنی بلوچستان کو نہ دینے سے بلوچ قوم میں جو مایوسی پائی جاتی تھی وہ ریاست کی جانب سے بلوچ نسل کش پالیسی کے سبب نفرت کے اعلی درجے پر پہنچ چکی ہے اب ساحل وسائل کا خیر ہے بلوچ قوم کی زند و بقاء خطرے میں ہیں، جب میری شناخت اور زندگی جس سے خطرے میں ہو اس سے نفرت نہیں تو اور کیاکروں؟

پچھلے سال بالاچ بلوچ کی شہادت کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سرکردگی میں بلوچ سیاسی مزاحمت نے جو شعوری کردار ادا کیا وہ قابل تعریف اور ریاست کیلئے ناقابل برداشت ہے، مگر ریاستی اداروں نے ہمیشہ کی طرح سبق نہ سیکھتے ہوئے اس درمیان میں اپنے ظلم و زیادتیوں میں شدت لاتے ہوئے کئی بالاچ شہید کئے اور پھر 2024 کے نومبر کی انہی ایام میں بشیر بلوچ کو ماورائے عدالت قتل کرکے بالاچ کے زخم تازہ کردیئے۔ میں شہید بالاچ بلوچ و بشیر بلوچ سمیت تمام شہداء کو خراج عقیدت پیش، زندانوں میں ہزاروں فرزندوں کو سرخ سلام، ماما قدیر حوران نصراللہ کو خراج تحسین کرتاہوں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے روح رواں ماہ رنگ بلوچ، صبیحہ بلوچ، صبغت شاہ جی، سمی دین جان بلوچ، بیبوبلوچ، شلی بلوچ، بیبرگ بلوچ، سعدیہ بلوچ، گلزادی، ماہ زیب، لالا وہاب، سیما، سائرہ، وسیم سفر، گلزار دوست سمیت تمام سیاسی مزاحمت کاروں کو لال سلام پیش کرتے ہوئے اس بلوچ سیاسی تحریک کو مزید منظم اور ایک جدید طرزوں کے عین مطابق ناقابل تسخیر شکل دینے کی درخواست کرتاہوں۔

یہ درخواست اس لئے نہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اہداف حاصل کرنے میں قاصر ہے یا کمزور پڑ رہی ہے بلکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی روز بروز منظم ہونے کی جانب رواں ہے تاہم بلوچستان میں انسانی حقوق کی مسلسل پامالیاں نہیں تھم رہی تو اس جاری جہد میں ہمیں کچھ اور سیاسی مزاحمت کے گر استعمال کرنے کی ضرورت ہے جو یہاں انسانی حقوق کے پامالیوں کو روکنے میں مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ مزل مونا ٹے پندے مرغن کیس، استے بھلون کیس۔۔۔ ” (ذوت ان شاء اللہ، امید بالیقین! )

واضح رہیکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔ ریاست اس مسئلے کا حل صرف فوجی طاقت سے چاہتی ہے جو ناممکن ہے۔ اس ظلم و جبر کی صوتحال میں ریاست اور بلوچ قوم فریقین ہیں، ظلم ڈھانے والے فریق سے شفافیت و انصاف کا مطالبہ کرنا غیرعقلی عمل ہے لہذا عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے معاملے میں شفافیت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے، انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کی جانی چاہیے۔ بلوچستان میں قانون کا راج قائم کیا جانا چاہیے اور بلوچ عوام کو قانون کی یکساں نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ بلوچستان کی اقتصادی ترقی کے لیے بلوچ وسائل کے عین مطابق انصاف پر مبنی اقدامات کروائے جانے چاہیے۔ بلوچ مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ بہ دیگر تمام تر صورتحال میں جفاکش بلوچ ظلم کے سامنے سرنگوں ہوا ہے نہ کبھی ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں