تعلیم دو زندان نہیں: بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کے خلاف مختلف شہروں احتجاج

98

بلوچ طلباء کی جانب سے خضدار و اوتھل میں لاپتہ ساتھی طلباء کی بازیابی کے لئے ریلیاں نکالی گئی اور احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔

لاپتہ طالب علم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کی جبری گمشدگی کو تین سال مکمل ہونے اور بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کے سلسلے میں آج خضدار اور اوتھل میں ریلیاں نکالی گئی۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے انجنیئرنگ یونیورسٹی میں ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا جہاں طلباء و طالبات کے بڑی تعداد میں ریلی شرکت کرتے ہوئے، لاپتہ طلباء ساتھیوں کی عدم بازیابی و بلوچستان سمیت دیگر علاقوں سے جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرہ بازی کی۔

اس دوران انجنیئرنگ یونیورسٹی انتظامیہ نے جامعہ کے مرکزی دروازے بند کردیے اور طلباء کو جامعہ کے اندر داخلے سے روک دیا، تاہم اسکے باجود بلوچ طلباء نے اپنے ریلی منعقد کرتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کرایا۔

بساک کی جانب سے سہیل و فصیح بلوچ کی جبری گمشدگی کے تین سال مکمل ہونے پر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جہاں آج ہی اوتھل میں طلباء کے احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا جبکہ اس سے قبل تربت میں بھی احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔

اپنے احتجاجی کیمپین کے حوالے سے پریس رلیز جاری کرتے ہوئے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں پچھلے تین دہائیوں سے جاری ہیں جن میں ہزاروں لوگ اس انسانیت سوز مظالم کا شکار ہوئے ہیں جن میں کئی خوش قسمت لوگ ان تاریک قید خانوں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے، کئی مسخ شدہ ہو کر گلزمین کے باہوٹ ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں آج بھی بلوچ نوجوان، طالبعلم، سیاسی و سماجی کارکنان، وکلاء، اساتذہ سمیت زندگی کے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اس ظلمت کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کوئی ایسا گھرانہ، قبیلہ، گلی محلہ، شہر کوچہ بلوچستان میں نہیں جہاں اس جبر سے لوگ واقف نہ ہوں۔

تنظیم نے کہا اس تمام تر جبر جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ آپ کے ہم عصر نوجوان ہوئے ہیں انہی سکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے آپ جیسے طلبا سالوں سے کال کوٹھڑیوں میں قید ہیں، آپ کا ایک پورا نسل جو سیاسی شعور رکھتا تھا زندانوں کے نذر ہوا یا مسخ شدہ ہوکر ویرانوں میں پھینکا گیا۔

بساک نے اپنے پریس رلیز میں کہا ہے کہ اس اذیت سے آپ سبھی نہ صرف واقف ہیں بلکہ اس کرب سے گزر رہے ہیں کہ کب، کہاں، کون اس جبر کا شکار ہو، اس غیریقینی کیفیت سے صرف آپ نہیں بلکہ بلوچستان کا ہر ایک طبقہ گزر رہا ہے سہیل اور فصیح آپ ہی کی طرح یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھے جو آج سے تین سال قبل بلوچستان یونیورسٹی کے ہاسٹل سے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے اور آج تک ان کا کوئی سراغ ان کے ساتھیوں یا خاندان کو مہیا نہیں کیا گیا۔

انکا مزید کہنا تھا بلوچ قوم بالخصوص بلوچ نوجوانوں، اس جبر کا حل خاموشی میں ہرگز نہیں بلکہ اس کے خلاف مزاحمت ہی میں بقا ہے۔ جبری گمشدگیوں کا مقصد بلوچ معاشرے کو تاریکیوں میں دکھیل کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں سوال جواب نہ ہو، جہاں ساحل وسائل، بلوچ و بلوچیت، اور بلوچستان کا نام لینے والا کوئی نا ہو جہاں ایک اپاہج سماج ہو جس کی وسائل کی لوٹ کھسوٹ، قومی شناخت کا خاتمہ بغیر کسی مزاحمت کے کیا جاسکے، اس لئے سوال اٹھائیں، آواز اٹھائیں، اور ان لوگوں کے ساتھ ہمگام ہوجائیں جو آپکی طرح اس جبر کے خلاف سراپا مزاحمت ہیں۔