بی ایم سی مسئلہ :بلوچستان کے طلباء تنظیموں کی احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان

146

بلوچستان طلباء تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں کی ملٹرائزیشن بند کی جائے اور مطالبات پر فوری عمل درآمد کیا جائے۔

بلوچستان کے طلباء تنظیموں نے بی ایم سی مسئلہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا گذشتہ دنوں بولان میڈیکل کالج میں طالبعلموں کے درمیان ایک معمولی مسئلہ ہوا تھا جس کے ردعمل میں کوئٹہ پولیس نے کالج کے اندر داخل ہو کر ظلم و بربریت کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے بولان میڈیکل کالج کے طلباء پر شدید تشدد کیا جس کی وجہ سے بہت سے طلباء شدید زخمی ہوگئے اور سینکڑوں طالبعلموں کو ہاسٹلز اور کالج کے احاطے کمروں سے نکال کر گرفتار کر لیا تھا۔

پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا اس کے علاوہ پولیس نے کمروں کو‌توڑ کر پڑھنے والے طالبعلموں پر‌ بھی لاٹھی برسائے اور شدید تشدد کا نشانہ‌بناتے رہے پولیس تشدد، گرفتاریوں اور غیر قانونی چھاپوں کے خلاف جب طالبعلموں نے بی ایم سی کے مین گیٹ پر دھرنا دینے کی کوشش کی تو پولیس نے طلباء کے احتجاجی دھرنے پر دھاوا بول کر طالبعلموں پر ایک بار پھر آنسو گیس کی بے دریغ شیل داغے اور یہاں پر بھی طالبعلموں سمیت راہگیروں پر تشدد اور گرفتاریاں کی گئی جس کی وجہ سے کچھ طالبعلوں کی حالت انتہائی خراب ہوگئی تھی جنہیں بعد میں اسپتال منتقل کردیاگیا۔

‏انہوں نے کہا بی ایم سی کے طالبعلموں پر پولیس تشدد اور گرفتاریاں بلوچ و پشتون طالبعلموں کے خلاف حکومتی جارحانہ پالیسیوں کی واضع مثال ہے جو کہ پچھلے کئی سالوں سے جاری ہیں۔ بی ایم سی طلباء کے خلاف کاروائیوں کے بعد کوئٹہ پولیس نے دیگر نجی ہاسٹلز و پلازوں پر بھی چھاپے مار کر کئی طالبعلموں کو گرفتار کر کے ان کے سامان کو بھی ضبط کرلیا۔

طلباء کے مطابق بوائز ہاسٹلز پر چھاپے اور گرفتاریوں کے بعد ہاسٹلز کو مکمل طور پر سیل کردیا گیا ہے جو کہ اب پولیس کے قبضے میں ہیں، جبکہ گرلز ہاسٹل کو بھی جبری طور پر خالی کرنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری گرلز ہاسٹل کے باہر تعینات ہے جو کہ پچھلے تین دنوں سے طالبات کو‌ ذہنی حوالے سے ہراسںاں کرنے سمیت انہیں مختلف طریقوں سے ڈرایا دھمکایا جارہا ہے اس طرح پولیس کی بھاری نفری گرلز ہاسٹل کا محاصرہ‌ کررہی ہے جس سے طلباء و طالبات زہنی کوفت کے شکار ہیں۔

انکا کہنا تھا پولیس نے تمام تر روایات کو پامال کرتے ہوئے طالبات پر بھی تشدد کی اور گرلز ہاسٹل کے پانی اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کو بھی بند کردیا گیا ہے جس سے بہت سے طالبات کی حالت خراب ہے۔ پولیس کی جانب اس طرح کا وحشیانہ تشدد بی ایم سی کو سوچے سمجھے سازش کے تحت ملٹرائزیشن کی طرف دھکیلنا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔

‏طلباء تنظیموں کے مطابق گذشتہ چار دنوں سے بولان میڈیکل کالج میں جو واقعات پیش آئے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ بی ایم سی کے ہاسٹلز کو سازش کے تحت قبضہ کر کے ادارے کو ملٹرائزیشن کی طرف لے جایا جارہا ہے آج کی پریس کانفرنس کے توسط سے ہم طلباء تنظیمیں نہ صرف ان واقعات کی مزمت کرتے ہیں بلکہ اس کے خلاف منظم تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہیں۔

طلباء تنظیموں نے اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ‏ ہمارا پہلا مطالبہ طالبعلموں کی رہائی کا تھا جس میں تمام گرفتار طالبعلموں کو رہا کردیا گیا ہے، ہمارے دوسرے مطالبات جن میں بی ایم سی ہاسٹلز جو کہ غیرقانونی طریقے سے سیل کردیے گئے ہیں ان کی دوبارہ فعالی، مختلف چھاپوں اور گرفتاریوں کے دوران طالبعلموں کے سامان جو کہ پولیس کے قبضے میں ہیں ان کی واپسی اور ‏ بی ایم سی مسلئے پر غفلت برتنے والے انتظامیہ اور اس کے بعد طالبعلموں پہ پولیس گردی کرنے والے زمہ داران کے خلاف کاروائی شامل ہے۔

انہوں نے کہا بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں کی ملٹرائزیشن بند کی جائے-

انہوں نے کہا مطالبات کے حوالے سے ابھی تک‌ متعلقہ اداروں کی‌جانب کوئی‌پیش رفت نہیں ہوئی البتہ وہ اپنے گھناونے عمل‌ پر شرمندہ‌ ہونے کی‌ بجائے گرلز ہاسٹل پر بھی دھاوا بولنے جارہے ہیں جوکہ ایک اور پیچیدہ مسئلے کا سبب بنے گی۔‏

‏طلباء کا کہنا تھا اس تحریک کے تسلسل میں ہم بلوچستان حکومت اور کالج‏ انتظامیہ کو ایک دن کا مہلت دیتے ہیں کہ وہ کالج کو کھول کر ہاسٹلز بحال کریں اور ہمارے دیگر مطالبات کی شنوائی کریں بصورت دیگر بلوچستان کے طلباء تنظیموں کی‌ جانب سے بروز بدھ بولان میڈیکل کالج کے سامنے احتجاجی دھرنا شروع کیا جائے گا اور بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں میں پرامن احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا‌ جائے گا۔

انہوں نے آخر میں کہا اس کے علاوہ کل بروز منگل بولان میڈیکل کالج میں تمام طلباء تنظیموں کے گرینڈ میٹنگ کا بھی انعقاد کیا جائے گا جس میں تمام طلباء و طالبات، ڈاکٹر حضرات اور بی ایم سی کے دیگر تنظیموں سے شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔