مچھ کے رہائشی نیک محمد نے کہا ہے کہ میں سکنہکلی ساتکزی کا رہائشی ہوں ہمارے ہاں بیشتر لوگوں کا گزر بسر کوئلے کے کانوں میں کان کنی سے ہوتا ہے۔ میرا بھائی بابل بلوچ ولد یار محمد بھی کوئلے کے کان میں گزشتہ پانچ سالوں سے کان کنی کرتا تھا جو کہ حالیہ دنوں میں شام کے شفٹ میں 4 بجے سے 11 بجے تک کام کرتا تھا۔
انہوں نے کہاکہ معمول کے مطابق 28 اکتوبر 2024 کو جب وہ کام کے سلسلے میں گھر سے نکلا تو کوئلہ کان پہنچنے پر پتہ چلا کہ مزدوروں کی تعداد زیادہ ونے کی وجہ سے اسے چھی دیکر کل آنے کی تلقین جب واپسی پر 4:30 تا بجے کے قریب جامعہ مسجد کلی ساتکزئی مچھ ندی سے CTD کے اہلکاروں نے انہیں زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے گئے، جس کے بعد وہ ابھی تک جبری طور پر گمشدہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے قریبی تھانے میں اس واقعے کے بابت اطلاع بھی دی اور ایف آئی آر کے لیے درخواست بھی جمع کی مگر وہ منسوخ کی گئی اور ہماری ایف آئی آر بھی درج نہیں کی گئی۔ چند دنوں سے سرکاری حمایت یافتہ سوشل میڈیا اکاونٹس سے میرے بھائی کے تصاویر پوسٹ کئے جارہے ہے جس میں میرے بھائی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہے اور لکھا جارہا ہے کہ وہ گزشتہ روز مستونگ میں شادی کی تقریب میں شرکت کرنے والے بی ایل اے کے ارکان میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ نا ہی اب تک میرے بھائی کو کسی بھی الزام میں کسی عدالت میں پیش کیا گیا ہے اور نا ہی کوئی ایف آئی درج کر رہا ہے۔ ہم آپ سب کے توسط سے اپنی فریاد دنیا تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ ہمارے بھائی کی بازیابی میں ہماری مدد کریں۔ جس دن کے واقعے کے بنیاد پر ان پر سوشل میڈیا پہ بات کیا جارہا ہے وہ اس دن اپنے کام پہ موجود تھا جہاں روزانہ شناختی کارڈ ایف سی اہلکاروں کے ہاتھوں جمع کرکے حاضری لگائی جاتی ہے۔ اس بات کے ہمارے پاس ثبوت موجود ہے کہ ان پر لگایا جانا والا الزام جھوٹا ہے البتہ ہمیں ثابت کرنے کے لیے عدالتی کاروائی کا موقعہ دیا جائے اور اُسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ امید ہے آپ سب ہماری آواز بننے میں اپنا کردارادا کرینگے۔