بڑی چینی کمپنی کی پاکستان سے سرمایہ کاری ختم کرنیکی وارننگ

702

غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے ایک بڑا دھچکا، چین کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک ’’ سنچری اسٹیل گروپ‘‘ نے اپنا کاروبار بند کرنے اور پاکستان سے سرمایہ کاری واپس لینے کی وارننگ دے دی۔ 

رابطہ کرنے پر حکومت کے اعلیٰ عہدیدار نے دی نیوز کو بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے چینی کمپنی کی تمام شکایات کو دور کرنے کے لیے وزیر علیم خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے دیگر اراکین شامل ہیں.

 سنچری اسٹیل گروپ پرائیویٹ لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) لی چنجیان کی جانب سے وزیراعظم پاکستان کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ چائنہ سنچری اسٹیل گروپ افسوس کے ساتھ آگاہ کرتا ہے کہ انہوں نے کئی مسائل کی وجہ سے پاکستان میں اپنا کاروبار ختم کرنے اور اپنا پروجیکٹ واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے جنہیں سی پیک رشکئی خصوصی اقتصادی زون میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو سنبھالنے کے ذمہ دار حکومت پاکستان کے مختلف اداروں کی جانب سے حل نہیں کیا جا سکا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ یہ حکومت پاکستان کے لیے ہمارا آخری نوٹس ہوگا اور اگر مذکورہ بالا کو فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو ہم RSEZ سے پلانٹ کو ختم کرنا شروع کر دیں گے۔

خط میں کمپنی نے لکھا کہ وہ بڑے خواب لے کر پاکستان آئی اور تین مرحلوں میں صوبہ کے پی میں پہلے سی پیک رشکئی ایس ای زیڈ میں سب سے بڑی سٹیل مل لگانے کا منصوبہ بنایا۔

منصوبے کے پہلے مرحلے کی سرمایہ کاری 82 ملین ڈالر ہے جس میں سے 30 ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری RSEZ میں پہلے ہی 5 لاکھ ٹن اسٹیل مصنوعات کی منصوبہ بند سالانہ پیداوار کے ساتھ ہے۔

بقیہ دو مرحلوں سے پاکستان میں 200ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری اسٹیٹ آف دی آرٹ سٹیل ٹیکنالوجی چین سے پاکستان منتقل کر کے اسٹیل مصنوعات کی پیداوار کے لیے آئے گی۔ اسٹیل مصنوعات کی حتمی صلاحیت پانچ سالوں میں ڈیڑھ ملین ٹن تک پہنچ جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد پاکستان کے جی ڈی پی میں حصہ ڈالنا اور ہزاروں ملازمتیں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ علاقائی منڈیوں میں سٹیل کی مصنوعات کی برآمدات کو بڑھانا ہے۔

خیال رہے سی پیک سے منسلک چینی شہریوں کو حملوں کا بھی سامنا ہے۔ گذشتہ مہینے کراچی میں بلوچ لبریشن آرمی کے حملے بعد چینی شہریوں و سرمایہ کاروں کے تحفظ کے حوالے سے اقدامات کو موثر کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔

سی پیک کو بلوچ سیاسی و عسکری حلقوں کی جانب سے استحصالی منصوبہ قرار دیا جاچکا ہے جس کے ردعمل میں سیاسی حلقوں کی جانب سے اندرون و بیرون ملک مختلف فورمز پر احتجاج کرنا اور بلوچ مسلح آزادی پسند جماعتوں کی جانب سے سی پیک و دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

یاد رہے کہ گوادر پورٹ ، سی پیک، سیندک اور دیگر پراجیکٹس کے باعث بلوچستان میں چائنیز انجینئروں و دیگر اہلکاروں پر خودکش حملوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ کراچی میں انتہائی حساس مقام پر سخت سیکورٹی حصار میں چین کے انجنئیرز پر بی ایل اے فدائین یونٹ مجید بریگیڈ اور انٹیلجنس ونگ زراب کے کامیاب حملے سے واضح ہوتا ہے کہ تنظیم پورے پاکستان میں کسی بھی مقام پر چین کے مفادات اور منصوبوں پر حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔