پاکستانی وزیر اعظم کی جانب سے بلوچستان میں فوجی آپریشن کے اعلان کے بعد، بلوچ سیاسی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور اس فیصلے کو بلوچستان کی موجودہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنانے کے مترادف قرار دیا ہے۔
گذشتہ روز ایپکس کمیٹی کے فیصلے کے بعد بلوچستان میں بڑی تعداد میں فوجی نقل و حرکت کا سلسلہ جاری ہے جبکہ متعدد علاقوں میں آپریشن کی بھی اطلاعات ہیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنان نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ماہ رنگ بلوچ، جو بلوچستان کی ایک معروف انسانی حقوق کے کارکن ہے، نے اس فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی سکیورٹی صورتحال اس مقام تک صرف طاقت کے استعمال کی وجہ سے پہنچی ہے۔
ان کا کہنا تھا بلوچستان میں گاؤں کے گاؤں اجڑ چکے ہیں، حکومت کو سوچنا چاہیے کہ کیوں بلوچ دن بہ دن پہاڑوں کی طرف نکل رہے ہیں اور ایسی تحریکوں کا حصہ بن رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جاری اس نوعیت کے آپریشنز نہ صرف لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گے بلکہ ان کے نتائج بھی منفی ہوں گے۔
صبیحہ بلوچ طالب علم رہنماء اور ایک اور بلوچ انسانی حقوق کی کارکن ہے، نے بھی جرمن خبر رساں ادارے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس اقدام کے دوران معصوم افراد کے مارے جانے کے خدشے کا ذکر کیا۔
انہوں نے کہا ہمیں ڈر ہے کہ اب کیا ہوگا؟ مجرم اور معصوم کے بارے میں کون فیصلہ کرے گا؟ کیونکہ یہاں کوئی عدالتی یا سیاسی جوابدہی موجود نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت بلوچستان میں امن و امان بحال کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانی چاہیے۔
صبیحہ بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل صرف فوجی آپریشنز میں نہیں، بلکہ ایک سیاسی مکالمے کے ذریعے ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا حقیقی بلوچ قیادت کو سامنے لایا جائے اور ہمیں شفاف طریقے سے اپنے رہنماؤں کو منتخب کرنے کا حق دیا جائے۔
انہو نے حکومت کی ایک ہی لاٹھی کے تحت سب کو ہانکنے کی پالیسی کو بھی غلط قرار دیا اور کہا کہ صرف پرتشدد عناصر کے خلاف محدود آپریشن ہونا چاہیے اور وہ بھی مناسب عدالتی اور سیاسی نگرانی کے تحت۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، جو بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ہیں، نے بھی اس آپریشن کو ایک غلط فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ اس سے صوبے میں بدامنی اور نفرت بڑھے گی۔
انہوں نے کہا بلوچستان میں آپریشن تو 22 سال سے جاری ہے، لیکن کیا کوئی بہتری آئی ہے؟ حالات پہلے سے زیادہ خراب ہیں اور لوگوں کے تحفظات دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جاری اس قسم کے فوجی آپریشنوں کا مقصد نہ تو امن قائم کرنا ہے اور نہ ہی صوبے کے مسائل کا حل پیش کرنا ہے بلکہ یہ مزید شدت پسندانہ سرگرمیوں کو ہوا دینے کا سبب بن سکتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مزید کہا کہ اگر حکومت بلوچستان کے مسائل کا حل چاہتی ہے، تو اسے فوجی نقطہ نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا ہوگا اور صوبے کے مسائل جیسے مسنگ پرسنز، بے روزگاری اور گورننس کے معاملات پر توجہ دینی چاہیے۔
انہوں نے بھی اس بات پر زور دیا کہ صوبے کی حقیقی قیادت کو سامنے لایا جانا چاہیے اور ان پر اعتماد کرنا چاہیے تاکہ بلوچستان کے مسائل کا حل نکالا جا سکے۔
دوسری جانب ایچ آر سی پی (ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان) نے بھی بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن کے حوالے سے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ایچ آر سی پی نے ایک اعلامیے میں کہا کہ بلوچستان میں جاری شورش اور تشدد کے مسئلے کا حل صرف سیاسی مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
ایچ آر سی پی نے حکومت کی جانب سے مزید عسکری طاقت کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ماضی میں ایسے اقدامات سے مقامی آبادی کا غصہ اور بداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔ تنظیم نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بلوچستان کے شہریوں کے آئینی حقوق کا تحفظ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہ ہوں۔
بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن:
بلوچستان کے ضلع نوشکی میں بدھ کو دوسرے روز بھی فوجی آپریشن جاری رہی۔ اطلاعات کے مطابق، پاکستانی فورسز نے نوشکی کے مختلف علاقوں جیسے منجرو اور گوربرات میں مارٹر گولے فائر کیے اور گھروں کو نذر آتش کیا۔
اس آپریشن میں فوجی دستوں کے علاوہ ہیلی کاپٹر بھی شریک ہیں، جن کے ذریعے کمانڈوز کو مختلف مقامات پر اتارا جا رہا ہے۔ تاہم، ابھی تک کسی قسم کی جانی نقصان یا گرفتاری کی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں۔
بلوچ رہنماؤں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق، بلوچستان میں اس طرح کے آپریشنز کا مقصد صرف بلوچستان میں موجود عوامی غم و غصے کو بڑھانا ہے اور ان کے مطابق یہ فوجی کارروائیاں بلوچستان میں مسائل کے حل کے بجائے مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتی ہیں۔