بلوچستان کے نوجوانوں کے لئے علم کی اہمیت: سامراجیت کے خلاف جدوجہد کا راستہ – چاکر بلوچ

54

بلوچستان کے نوجوانوں کے لئے علم کی اہمیت: سامراجیت کے خلاف جدوجہد کا راستہ

تحریر : چاکر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان، جو قدرتی وسائل اور ثقافتی ورثے سے مالا مال ہے، ہمیشہ سے سامراجی اور استحصالی طاقتوں کے نشانے پر رہا ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کو، جو ان مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں، ضرورت ہے کہ وہ ظلم اور جبر کے خلاف شعور و آگاہی کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے اہم ہتھیار علم ہے۔ علم نوجوانوں کو نہ صرف سامراجی طاقتوں کے خلاف جدوجہد کا شعور دیتا ہے، بلکہ انہیں مختلف انقلابی تبدیلیوں کی تاریخ سے روشناس کراتا ہے، جو انہیں ایک بااختیار اور باشعور قوم بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

علم کی اہمیت: عمومی اور انقلابی کتابوں کا کردار

بلوچستان کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ محض نصابی کتابوں تک محدود نہ رہیں بلکہ عمومی (جنرل) اور انقلابی کتابوں کا مطالعہ بھی کریں۔ نصابی کتابیں ہمیں صرف محدود معلومات دیتی ہیں، جبکہ جنرل اور انقلابی کتابیں تاریخ، سیاست، سماج اور بین الاقوامی تعلقات کے پہلوؤں سے آگاہ کرتی ہیں۔ اس قسم کی کتابیں نوجوانوں کو دنیا کے مختلف انقلابی تحریکوں، رہنماؤں اور قوموں کی جدوجہد سے روشناس کراتی ہیں، جو انہیں ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کرنے کا شعور و جذبہ فراہم کرتی ہیں۔

انقلابی تحریکیں: کیوبا اور افریقہ سے سبق

دنیا بھر میں بہت سی ایسی قومیں ہیں جنہوں نے سامراجی طاقتوں کے خلاف جدوجہد کر کے آزادی حاصل کی۔ کیوبا اور افریقہ کی انقلابی تحریکیں اس سلسلے میں ایک مثالی مقام رکھتی ہیں اور ان کے مطالعے سے بلوچستان کے نوجوانوں کو بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے۔

کیوبا کا انقلاب

کیوبا کا انقلاب، جس کی قیادت فیڈل کاسترو، چے گویرا اور دیگر انقلابی رہنماؤں نے کی، نوجوانوں کے لئے ایک اہم مثال ہے۔ کیوبا کے عوام نے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی اور امریکہ جیسے طاقتور سامراجی ملک کے خلاف اپنی آزادی کی جنگ جیتی۔ کیوبا کے انقلاب نے نہ صرف کیوبائی عوام کو غلامی سے نجات دلائی بلکہ پوری دنیا کے مظلوم قوموں کو یہ پیغام دیا کہ ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کر کے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

فیڈل کاسترو اور چے گویرا کے انقلاب کے اسباق بلوچستان کے نوجوانوں کے لئے اس لئے بھی اہم ہیں کہ وہ یہ سیکھ سکتے ہیں کہ جدوجہد کے لئے نہ تو ہتھیار ضروری ہیں اور نہ ہی بڑی تعداد، بلکہ پختہ ارادہ اور مضبوط قیادت کے تحت جدوجہد کی جا سکتی ہے۔ کیوبا کے انقلاب نے یہ ثابت کیا کہ اگر قوم کا شعور بیدار ہو جائے اور نوجوان ایک مقصد کے تحت متحد ہو جائیں، تو وہ کسی بھی سامراجی طاقت کا سامنا کر سکتے ہیں۔

افریقہ کی آزادی کی تحریکیں

افریقی براعظم کی تاریخ سامراجیت اور استحصال کے خلاف طویل جدوجہد سے بھری پڑی ہے۔ الجزائر، جنوبی افریقہ، کینیا اور دیگر افریقی ممالک نے طویل اور شدید مزاحمت کے بعد آزادی حاصل کی۔ نلسن منڈیلا، جومو کنیاتا، احمد بن بیلا اور دیگر افریقی رہنماؤں کی قیادت میں ان ممالک نے سامراجیت اور نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کی۔ نوجوانوں کے لئے افریقی تحریکیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ ظلم اور جبر کے خلاف جدوجہد طویل ہو سکتی ہے، لیکن کامیابی اسی قوم کو ملتی ہے جو متحد ہو اور اپنے حقوق کے لئے ڈٹ کر کھڑی ہو۔

افریقی آزادی کی تحریکیں بلوچستان کے نوجوانوں کو یہ بھی سکھاتی ہیں کہ ظلم اور جبر کے خلاف جدوجہد میں صبر، استقامت اور اپنے لوگوں کی بھلائی کے لئے قربانی دینا لازمی ہے۔ نلسن منڈیلا کی مثال بلوچستان کے نوجوانوں کے لئے قابل تقلید ہے، جنہوں نے نسل پرستی کے خلاف اپنی زندگی کے ستائیس سال قید میں گزارے لیکن ہار نہیں مانی۔

علم اور شعور کی اہمیت

علم اور شعور نوجوانوں میں ظلم اور استحصال کے خلاف سوال اٹھانے کی ہمت پیدا کرتا ہے۔ عمومی کتابیں نوجوانوں کو مختلف قوموں کی جدوجہد سے آگاہ کرتی ہیں اور ان میں یہ شعور پیدا کرتی ہیں کہ اپنی آزادی کے لئے کھڑا ہونا ضروری ہے۔ اگر ہم کیوبا، افریقہ اور دیگر ممالک کی جدوجہد سے سیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ علم اور شعور کے بغیر کسی بھی قوم کو ظلم سے آزادی نہیں مل سکتی۔

جنرل اور انقلابی کتابیں بلوچستان کے نوجوانوں کو یہ سکھاتی ہیں کہ سامراجیت کے خلاف کھڑا ہونا آسان نہیں ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تاریخ میں کوئی قوم تب تک آزاد نہیں ہوئی جب تک اس نے اپنے حقوق کے لئے علم و شعور کے ساتھ مزاحمت نہ کی ہو۔ ایسی کتابیں نوجوانوں کو عالمی سطح پر سامراجیت کے خلاف جدوجہد کی کہانیاں سناتی ہیں اور ان میں یہ یقین پیدا کرتی ہیں کہ بلوچستان بھی ظلم و جبر سے نجات پا سکتا ہے۔

انصاف اور انسانیت کا فروغ

علم اور انقلابی کتابیں نوجوانوں میں انصاف، انسانیت اور اخلاقی اصولوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔ سامراجی قوتیں ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہیں اور اس کے لئے ظلم و جبر سے کام لینے سے نہیں چوکتیں۔ تاہم، جنرل کتابیں نوجوانوں کو یہ سکھاتی ہیں کہ باشعور قومیں نہ صرف اپنے حقوق کے لئے کھڑی ہوتی ہیں بلکہ انصاف، انسانیت اور اخلاقی اصولوں کی بھی پیروی کرتی ہیں۔ ایسی قومیں دنیا میں عزت و احترام کے ساتھ زندہ رہتی ہیں اور استحصال کے خلاف ایک طاقتور مزاحمت کا مرکز بنتی ہیں۔

علم کا عملی استعمال

بلوچستان کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ جو علم حاصل کرتے ہیں اسے عملی زندگی میں استعمال کریں۔ عمومی اور انقلابی کتابوں کے ذریعے حاصل کردہ علم ان میں شعور پیدا کرے گا اور انہیں اپنے مسائل کے حل کے لئے راہیں تلاش کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ کیوبا اور افریقی تحریکوں کا مطالعہ انہیں یہ سکھائے گا کہ کیسے نوجوان اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہو سکتے ہیں اور کیسے ظلم کے خلاف منظم جدوجہد کر کے تبدیلی لا سکتے ہیں۔

اختتامیہ

بلوچستان کے نوجوانوں کے لئے علم کی اہمیت کسی بھی انقلاب سے کم نہیں ہے۔ کیوبا، افریقہ اور دیگر انقلابی تحریکوں کے مطالعے سے نوجوانوں میں یہ شعور پیدا ہو گا کہ انہیں ظلم اور استحصال کے خلاف کیسے کھڑا ہونا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں