بلوچستان کی بانور کی وہ آخری میک اپ ۔ فرحان بلوچ

447

بلوچستان کی بانور کی وہ آخری میک اپ

تحریر: فرحان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

جس کی تربیت bso آزاد جیسی عظیم ادارے نے کی ہو وہ کیسے چیئرمین زاہد اور ثنا سنگت سے قربانی کی راہ میں پیچھے رہ سکتی ہے۔
شاری اُسکا شوہر اور دونوں بچوں کے لئے اُنکی پوری دنیا تھی۔ شاری ماہو اور مہرو کی صبح و شام تھی۔ شاری صرف اپنی بچوں کی ماں نہ تھی وہ اسکول میں استاد ہونے کے وجہ سے تین سو بچوں کی ماں تھی۔ شاری اُستاد تھی اِس لئے وہ بہت خُوب سبق یاد کروانا جانتی تھی۔ طالب علموں کے ساتھ ساتھ اپنے قوم اور دُشمن کو بھی شاری نے ایسی سبق یاد کرائی کہ رہتی دنیا تک نہ قوم اور نہ ہی دُشمن وہ سبق بھول سکے گی۔ بلوچستان میں اگر اُستادوں کا نام لیا جائے اور اُس میں پروفیسر صباء دشتیاری کی ذِکر نہ ہو تو یہ سچائی اور حقیقت کی پردہ پوشی ہوگی۔ پروفیسر صباء جس کو بلوچ آزادی کا استاد کہا جاتا ہے۔ بلکہ حقیقتاً صباء آزادی کی استاد تھے۔ صباء کی آواز آج بھی بلوچستان یونیورسٹی میں گونج رہا ہے کہ یہ بلوچ کی زمین ہے۔ بلوچ قوم اور دُشمن آج تک وہ سبق نہ بھول پائی جو صباء نے دیا تھا۔ اور آج ایک اور اُستاد شاری نے ایک اور تاریخ رقم کردی۔

ہر صبح کی طرح آج بھی شاری اُٹھ کر اپنی بچوں کے لئے ناشتہ اور چائے بناتی ہے اور اُنکو بستر سے اٹھاتے وقت مہرو اور ماہو کی گالوں کو چومتی اور لوری گا کر کہتی میرے جان کے ٹکڑوں، میری آنکھوں کے ٹھنڈک، میرے دِل کے سکون، میرے مستقبل کے سہاروں، میری گھر کے چراغوں، میری دل کے دھڑکنوں اب اُٹھو ۔ اور مہرو کو اپنی کندھوں پر اُٹھا کر ہاتھ سے پکڑ کر لوری گاتی ہوئی دونوں کو ناشتہ کرا کر پھر نہلا کر کپڑے پہنا کر دونوں کو سینے سے لگا کر مسکرا کر کے کہتی جس طرح میں اتنے وقت سے تُم لوگوں کو ہر روز تیار کر لیتی ہوں اب بس تُم بڑی ہوگئی ہو آج کے بعد تمہیں خود کو اور مہرو کو تیار کرنا ہوگا۔

اپنے بابا کے لئے بھی تمہیں ناشتہ بنانا ہوگا۔ وہ بولتی ہے نہیں امّا جان میں اتنی بڑی نہیں ہوئی ہوں امّا جان میں بوڑھی بھی ہوجاؤ تب بھی میں آپکے ساتھ رھوں گی اور آپ مُجھے اسطرح اُٹھاؤ اور نہلا ہو یوں ہی لوری گاتی ہوئی میری گالوں کو چومتی رہو۔ تو شاری کہتی ہے کہ تُم چھوٹے بچوں کی طرح ضد نہ کرو تم میری بڑی بیٹی ہو۔ اِدھر دیکھو اس طرح میکپ کرتے ہیں آئندہ اسی طرح خود کو سینگار لو۔ ہمیشہ بلوچی کپڑے پہنو تُم پر بلوچی کپڑے بہت ججتے ہیں۔ تُم مجھ پر گئی ہو اور جب بھی میں بلوچی کپڑے پہنتی تھی تُو مُجھے میری لُمّہ جان کہتی تھی کہ شاری تمہیں لوگوں کی نظر لگ جائے گی۔ ایک کالا ٹیکہ میری چہرے پر لگاتی تھی اور پھر میں اسکول جاتی تھی اس لیے تُم بھی خود کو روزانہ ایک کالا ٹیکہ لازم لگانا۔ اگر کوئی تمہیں پوچھے کہ تمہارا ماں کہاں اور کون ہے اگر کوئی تمہیں یتیم کہے تو اسے کہنا کہ تم یتیم نہیں ہو تمارا میرا اور ہم سب بلوچوں کا ماں بلوچستان ہے۔ اور صرف وہی ماں ہے جو ہمیں مرنے سے پھلے اور بعد میں بھی سینے سے لگا کر رکھتی ہے سرزمین(بلوچستان) سے اچھی ماں کہیں نہیں ہے۔

وہ بھی حیران ہوئی ہوگی کہ آج میری امی کس طرح کی باتیں کر رہی ہے لیکن اس کی عُمر ہی کیا تھی کہ وہ یہ سب سمجھتی۔ ایک آخری بار ایک عظیم قربانی دینی والی ماں نے اپنے بیٹوں کو (شاری نے محوِ اور مہرو) کو اتنے دیر تک گلے لگائی کہ جیسی ایک پوری عمر گزر جائے۔ اُفف ایک یہ رخصتی اور ایک وہ لُمّہ یاسمین کی ریحان جان کو رُخصتی دنیا کے سب سے دردناک اور سب سے خوبصورت رُخصتی تھی۔ جب مقصد اتنی عظیم(آزادی) ہو تو یہ رُخصتی کیسی دُلہن کی رُخصتی سےکم نہیں۔

شاری اُس آخری بار گلے لگنے کے ساتھ اپنا جنم دن بھی پوری جشن سے اپنی بچوں کے ساتھ منا رہی تھی اُن بچوں کو شاری کی ممتا کے بغیر اور کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہو گا۔ ٹارگٹ مس کرنے کے بعد پورا دن یہ سوچنا کہ کل میں کسطرح اپنا ٹارگٹ حاصل کر لونگی اور اسی سوچ میں اپنی دو ننی پریوں کو بھی بھول جانا اُف اِس سوچ نظریہ فکرِ پر قربان جاؤں۔ پھر سنگتوں سے ہال اھوال ہونا کے ٹارگٹ آج مس ہوا کل نجانے کیا ہوگا۔ سنگت بھی تو اُستاد اسلم کا پیرو کار تھا ہنس کر کہنے لگا کہ شاری خیر ہے آج نہیں تو کل ہوگا۔ آج شام بس اپنے بچوں کو لوری سناتے رہو ٹارگٹ کل دیکھا جائیگا۔ پر یہ لوری صرف موبائل میں ویڈیو کال کی صورت میں مُمکن تھی کیوں کہ وہ بچے اب شاری سے بہت دُور پہنچ چکے تھے۔ پوری رات شاری اپنے بچوں کو ویڈیو کال پر مہر و محبت کرتی رہی سمجھاتی رہی ایسے میں کب صبح ہوئی پتہ ہی نہ چلا۔ اور پھر شاری نے دشمنوں کی نیندیں حرام کردی۔
شاری ایک نفل ہے تہجُد کا
شاری صبح کی آزان ہے۔
شاری غیرت کی نام ہے۔
شاری بلوچستان ہے۔

شاری مجید بریگیڈ کی پہلی بلوچ خاتون فدائی تھی اور شاری اپنی آخری ویڈیو پیغام میں اِس بات پر فخر کرتی ہے کہ اسکو پہلی بلوچ خاتون فدائی کی اعزاز حاصل ہے۔ یہ اب صرف ایک شاری تک نہیں رکھنے والی جنگ ہے۔شاری سے سمعیہ اور سمعیہ سے یہ ہزاروں کی ایک تاریخ ہوگی انشاءاللہ۔ آج محوِ اور مہرو کو شاری کی وہ پیار تُو میسر نہیں پر لُمّہ یاسمین کی پرورش اُنکے لیے شاری کی پیار سے کم نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں