بلوچستان میں ٹارگٹڈ فوجی آپریشنز کا سلسلہ گزشتہ 20 برسوں سے جاری ہے۔ڈاکٹر مالک بلوچ

270

نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے نزدیک بلوچستان کے مسائل کا حل فوجی آپریشن نہیں۔ بلکہ اس کے لیے متبادل راستے تلاش کرنے چاہیئں۔

وہ مختلف مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ علیحدگی پسند تنظیموں سے ان کے مذاکرات 80 فی صد کامیاب ہو گئے تھے تاہم اچانک ان مذاکرات کا سلسلہ رک گیا۔

امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ٹارگٹڈ فوجی آپریشنز کا سلسلہ گزشتہ 20 برسوں سے جاری ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب ماضی کے آپریشنز سے کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہیں ہوا تو موجودہ آپریشن سے کیا نتیجہ نکلے گا۔

سابق وزیرِ اعلیٰ نے کہا، “ہم اس آپریشن کی مخالفت کرتے ہیں اور مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتے ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن سے مسائل اور مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ جب کہ یہ اقدام عوام اور ریاست کے درمیان فاصلے کو مزید بڑھا دے گا۔

ان کے بقول “ریاست کو چاہیے کہ وہ مذاکرات کی حکمت عملی اختیار کرے اور ایسے اقدامات کرے جو عوام کو ریاست سے مطمئن اور خوش رکھنے میں مددگار ثابت ہوں۔”

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے رہنماؤں نے بھی بلوچستان میں نئے فوجی آپریشن کی مخالفت اور مذمت کی ہے۔

بی این پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن غلام نبی مری نے کہا کہ حکومت اور اسٹیبشلمنٹ کو چاہیے تھا کہ وہ موجودہ حالات میں بلوچستان میں فوجی آپریشن کا اعلان کرنے کے بجائے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مل کر مفاہمت کا اعلان کرتے۔

ان کے بقول پاکستان بننے سے اب تک بلوچستان میں یہ چھٹا فوجی آپریشن ہوگا۔ حکمران اور فوجی قیادت خود سوچیں کہ ان آپریشنز کا کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا ہے۔

غلام نبی مری نے مزید کہا کہ بلوچستان میں پہلے ہی اس طرح کے فوجی آپریشنز جاری ہیں۔ لوگوں کو جبری طور پر لاپتا کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے صوبے میں الیکشن اور پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والے لوگوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔

ان کے بقول، ماضی میں جن آمروں نے بلوچستان میں فوجی آپریشنز کیے آج ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے صوبے میں حالات خراب ہیں۔ حکمرانوں کو اب بھی یہ اندازہ نہیں ہو رہا کہ وہ کس ڈگر پر چل رہے ہیں۔