بلوچستان میں فوجی آپریشن: سخت عسکری انتظامات اور بارڈر کنٹرول میں اضافہ

762

پاکستان کی قومی ایپکس کمیٹی کی جانب سے بلوچستان میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کی منظوری کے بعد ایران، افغانستان، بحیرہ عرب اور دیگر علاقوں کے ساتھ منسلک سرحدوں پر سخت عسکری انتظامات کے اطلاعات ہیں۔

پاکستانی فورسز نے سرحدی علاقوں میں اضافی نفری تعینات کرکے سرچ آپریشنز اور بارڈر پیٹرولنگ کو مزید مؤثر بنا دیا ہے۔

سرکاری حکام کا مؤقف ہے کہ ان اقدامات کا مقصد مبینہ طور پر ان گروپوں کے خلاف کارروائی کرنا ہے جو “پاکستان کی معاشی ترقی کو نقصان پہنچانے اور بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے” کے الزام میں مطلوب ہیں۔

ایپکس کمیٹی اجلاس اور بلوچستان میں وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن کے فیصلے کے بعد تمام زمینی اور سمندری سرحدوں پر نگرانی بڑھا دی گئی ہے، بلوچستان کے ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں، جیونی سے بحیرہ عرب کے سمندری راستوں، اور پنجاب و سندھ کے بارڈرز پر بارڈر ملٹری فورسز کو فعال کر دیا گیا ہے۔

حکام کے مطابق فورسز کی معاونت کے لیے فوجی ہیلی کاپٹرز کو بھی اسٹینڈ بائی رکھا گیا ہے۔ اہم گزرگاہوں پر فورسز نے گاڑیوں اور افراد کی مکمل جانچ پڑتال کا عمل شروع کر دیا ہے، جس میں تفتان، مند، ماشکیل، چمن، اور ژوب کے سرحدی علاقے شامل ہیں۔

ایپکس کمیٹی کے فیصلے اور آپریشن کا دائرہ کار

ایپکس کمیٹی نے بلوچ مزاحمتی تنظیموں بشمول مجید بریگیڈ، بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کے خلاف وسیع پیمانے پر کارروائیوں کی منظوری دی ہے۔

پاکستان ان تنظیموں کو عدم استحکام پھیلانے اور غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنانے کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔

دوسری جانب پاکستانی فورسز کے ان اقدامات کے چلتے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں زمینی اور فضائی فوجی کاروائیوں کا آغاز ہوچکا ہے گذشتہ تین دن تک بلوچستان کے ضلع نوشکی کے شہری اور پہاڑی علاقوں میں فورسز کی جانب سے آپریشن کا سلسلہ جاری رہا۔

نوشکی آپریشن کے دوران فورسز کی جانب سے لوگوں کے گھروں کو نذرآتش کرنے سمیت مارٹر گولے فائر کرنے کی اطلاعات موصول ہوئی تھی۔

مزید برآں بلوچ تنظیموں نے ان آپریشنز پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بلوچ عوام کے خلاف جبر قرار دیا ہے۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، بلوچ یکجہتی کمیٹی اور ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان اقدامات سے جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوگا اور عام شہریوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

حکومتی موقف

حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ آپریشن دہشت گردی کے خاتمے اور خطے میں امن کے قیام کے لیے ناگزیر ہیں۔ تاہم، بلوچ سیاسی تنظیمیں ماضی کے آپریشنز کے نتائج پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، کیونکہ ان سے امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے بگڑتی دکھائی دی ہے۔

بین الاقوامی تناظر

بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے چین پاکستان اقتصادی راہداری اور اس سے منسلک منصوبوں اور افراد پر حملوں کے بعد خطے کی صورتحال مزید حساس ہو گئی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور دباؤ کے تحت پاکستان سخت اقدامات کر رہا ہے۔

چین نے اس سے قبل پاکستان سے اپنے شہریوں کی حفاظت کے لئے چینی سیکورٹی تعینات کرنے پر زور دیا تھا جبکہ اطلاعات ہیں کہ چین افغانستان میں طالبان حکومت سے بھی مطالبہ کررہا ہے کہ وہ افغانستان میں موجود بلوچ پناہ گزینوں کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے انہیں بے دخل کرے۔

چین نے اپنے منصوبوں پر پے درپے حملوں اور پاکستانی سیکورٹی کے ناکامی پر خود پاکستانی فورسز کو ٹریننگ دینے کے منصوبہ کا بھی اعلان کیا ہے جو رواں ماہ شروع ہونگے۔