بلوچستان میں جبری گمشدگیاں جاری، مزید پانچ افراد لاپتہ

87

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، مختلف علاقوں سے مزید پانچ افراد کے جبری گمشدگیوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے انسانی حقوق کے ادارے پانک کے مطابق، رواں مہینے بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے دشت کڈھان میں دو افراد کو الگ الگ واقعات میں جبری لاپتہ کیا گیا۔ 10 نومبر کو محمد ابراہیم کے بیٹے امیر بلوچ کو جبری لاپتہ کیا گیا، جبکہ 11 نومبر کو مزدور حکیم بلوچ جبری گمشدگی کا نشانہ بنے ہیں۔

پانک کے مطابق، رواں مہینے کیچ سے مزید تین افراد کی جبری گمشدگی کی اطلاعات ہیں۔ 11 نومبر کو سلمان بلوچ ولد لیاقت کو اغوا کیا گیا، 19 نومبر کو محمود کے بیٹے علی آغا کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا، جبکہ حبیب بلوچ ولد مجیب بھی جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں۔

پانک کے مطابق، یہ واقعات بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا تسلسل ہیں، اور خاندانوں کے ساتھ انسانی حقوق کے کارکنان پاکستانی فورسز اور ان کے حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈز پر عام شہریوں اور کارکنوں کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق، رواں ماہ جبری گمشدگیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جہاں 35 سے زائد افراد بلوچستان کے مختلف اضلاع سے جبری لاپتہ کیے گئے ہیں۔

پانک رپورٹ کے مطابق، گذشتہ ماہ بلوچستان سمیت کراچی اور پاکستان کے دیگر شہروں میں 110 سے زائد جبری گمشدگیوں کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں بلوچستان کے مختلف اضلاع میں چھ ماورائے عدالت قتل بھی شامل تھے۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں پر کام کرنے والی تنظیمیں، جیسے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، ان اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان تنظیموں نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ مداخلت کریں اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتحال کو روکنے میں مدد فراہم کریں۔