بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جاری بیان میں کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ایسے واقعات کی رپورٹنگ کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ سروسز بند کر دی گئی ہیں۔ چونکہ بلوچستان کا بیشتر حصہ پہلے ہی انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا سروسز تک رسائی کا فقدان ہے، اس لیے بڑے خطوں میں ڈیٹا سروسز کی بندش بلوچستان میں ریاستی حکام کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں معلومات کو سنسر کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صرف گزشتہ ماہ جبری گمشدگیوں کے 127 کیسز ریکارڈ کیے گئے۔ اس ماہ کے آغاز سے یہ تعداد نمایاں طور پر بڑھ رہی ہے۔ رپورٹ ہونے والے کچھ کیسز کی تفصیلات درج ذیل ہیں جن میں احمد علی بگٹی، فیض علی کے بیٹے، ایک استاد اور ایک نیک روح، 11 نومبر 2024 کو ڈیرہ بگٹی کے مین بازار سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنے۔دو روز قبل ہوشاب کے رہائشی طاہر علی ولد قہور اور باہوت رحیم ولد رحیم بخش کو ہوشاب سے زبردستی لاپتہ کر دیا گیا تھا۔رواں ماہ دشت کیچ کے علاقے کڈان سے دو نوجوان طلال بلوچ اور امیر بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔محمد حسن ولد عبداللہ ہارونی اور نصرت اللہ بلوچ ولد سردار لیاقت بلوچ جو کہ کلاں کے رہائشی ہیں کو خاران سے زبردستی لاپتہ کر دیا گیا۔
•گزشتہ رات پنجگور کے رہائشی نوروز ولد محمد اسلام کو حب چوکی سے زبردستی لاپتہ کر دیا گیا۔ نوروز اس سے قبل بھی دو مرتبہ جبری گمشدگی کا شکار ہو چکی ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ 7 نومبر 2024 کو گوادر سے موصول ہونے والی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی فورسز نے نعمان ولد اسحاق کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ اس کا ٹھکانہ ابھی تک نامعلوم ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم انسانی حقوق کے علمبرداروں اور تنظیموں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایسے بھیانک جرائم کے خلاف سنجیدہ کارروائی کریں۔ بلوچ عوام کو انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کا سامنا ہے اور ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں ایسا خاندان یا گھرانہ ملنا مشکل ہے جو ریاستی جبر سے متاثر نہ ہوا ہو۔