اسرائیلی وزیرِ دفاع کی برطرفی کے بعد ملک میں نتن یاہو کے خلاف احتجاجی مظاہرے

1

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کی جانب سے ملک کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ کو برطرف کرنے کے بعد ملک بھر میں وزیراعظم کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

یاد رہے کہ منگل کی شام نتن یاہو نے ’عدم اعتماد‘ کی وجہ سے اپنے وزیر دفاع یواو گیلنٹ کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ وزیر اعظم آفس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں نتن یاہو کا کہنا تھا کہ گذشتہ مہینوں کے دوران یواو گیلنٹ پر سے اُن کا اعتماد اُٹھ گیا ہے اور یہ کہ اب موجودہ وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز اُن کی جگہ بطور وزیر دفاع کام کریں گے۔

اسرائیلی حلقوں میں گیلنٹ کے متبادل کے طور پر آنے والے اسرائیل کاٹز کو عسکری حکمت عملی کے لحاظ سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔

وزیر دفاع کی برطرفی سے متعلق نتن یاہو کے اعلان کے فوراً بعد مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ بہت سے لوگوں نے وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا اور نئے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں بقیہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدے کو ترجیح دیں۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق کچھ لوگوں نے ایک ہائی وے پر جلاؤ گھیراؤ بھی کیا جس کے باعث ٹریفک معطل ہو گئی۔

حماس کے 7 اکتوبر کے حملے میں یرغمال بنائے گئے افراد کے خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے ایک گروپ نے بھی نتن یاہو کی جانب سے گیلنٹ کی برطرفی کے اقدام کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے تنقید کی کہ نتن یاہو کا یہ اقدام ایک بار پھر یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو ’پچھاڑنے‘ کی کوشش ہے۔

مظاہرین میں شامل ایک فرد یائر امیت نے کہا کہ نتن یاہو پورے ملک کو خطرے میں ڈال رہے ہیں ناصرف جنوب اور شمال کو، جہاں اسرائیل غزہ میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وزیر اعظم ’اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں اور سنجیدہ لوگوں کو اسرائیل کی قیادت کرنے دیں۔‘

منگل کی رات یواو گیلنٹ کی برطرفی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسرائیل کی سیاسی اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے عوام سے احتجاج کا مطالبہ کیا تھا۔

یواو گیلنٹ کو ہٹانے کا فیصلہ 48 گھنٹوں میں نافذ ہو گا کیونکہ نئے وزرا کی تقرری کے لیے حکومت اور پھر کابینہ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔

کئی میڈیا اداروں کے مطابق گیلنٹ کی برطرفی ایسے وقت میں کی گئی ہے جب غزہ جنگ میں اسرائیل کے کلیدی حمایتی امریکہ میں صدارتی انتخاب ہو رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ نتن یاہو کے مقابلے گیلنٹ کے وائٹ ہاؤس کے ساتھ قدرے بہتر تعلقات تھے۔

وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ایک نمائندے نے کہا کہ ’وزیر گیلنٹ اسرائیل کے دفاع سے متعلق تمام معاملات میں ہمارے ایک اہم پارٹنر رہے ہیں۔ قریبی شراکت دار کے طور پر ہم اسرائیل کے اگلے وزیر دفاع کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ یواو گیلنٹ کی برطرفی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب نتن یاہو پر انتہائی دائیں بازو کے سیاست دانوں کا دباؤ ہے کہ وہ ایک ایسا بِل منظور کریں جو اسرائیل کے انتہائی قدامت پسند شہریوں کو فوج میں خدمات انجام دینے سے مستثنیٰ ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ گیلنٹ اس بل کے مخالف رہے تھے۔

اپنے عہدے سے ہٹائے جانے کی خبر ملنے کے بعد یواو گیلنٹ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ ’ریاست اسرائیل کی سلامتی میری زندگی کا مشن تھی اور رہے گی۔‘

منگل کی رات انھوں نے ایک مکمل بیان جاری کیا جس میں انھوں نے کہا کہ ’تین مسائل پر اختلافات کی وجہ سے‘ انھیں عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔ گیلنٹ کا ماننا ہے کہ غزہ میں جنگ کے بجائے حماس کے ساتھ معاہدے کو برتری دینی چاہیے تاکہ یرغمالیوں کو آزاد کروا لیا جائے جبکہ نتن یاہو اس سوچ کے خلاف ہیں۔‘

گیلنٹ کا مزید کہنا ہے کہ قومی سطح پر اس معاملے کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔

اُن کا یہ بھی ماننا ہے کہ اسرائیل کے انتہائی قدامت پسند شہریوں کو فوج میں خدمات انجام دینے سے مستثنیٰ رہنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

7 اکتوبر 2023 کو حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے 251 میں سے 100 کے قریب اسرائیلی شہری غزہ جنگ کے ایک سال سے زائد عرصے تک لاپتہ رہے۔ ماضی میں بھی نتن یاہو اور گیلنٹ کے درمیان کئی بار تنازعات دیکھے گئے ہیں۔ مارچ میں نتن یاہو نے عدالتی نظام میں اصلاحات پر اختلاف کے بعد گیلنٹ کو عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ تاہم اسرائیل کے کئی شہروں میں مظاہروں کے بعد انھیں واپس عہدے پر بحال کیا گیا تھا۔

مئی میں گیلنٹ نے کہا تھا کہ اسرائیلی حکومت غزہ جنگ کے بعد کی منصوبہ بندی کو لے کر ناکام رہی ہے۔ گیلنٹ چاہتے تھے کہ نتن یاہو یہ اعلان کریں گے اسرائیل کا غزہ پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں۔

اس سے یہ ظاہر ہوا تھا کہ اسرائیلی کی جنگ کی کابینہ میں فوجی مہم کو لے کر اسرائیل میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ گیلنٹ نے کہا تھا کہ ’اکتوبر سے میں کابینہ میں مسلسل اس مسئلے پر بات کر رہا ہوں اور مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔‘

نتن یاہو نے جواب میں کہا تھا کہ وہ ’حماستان کو فتحستان سے بدلنے کے لیے تیار نہیں۔‘ وہ حریف فلسطینی گروہوں حماس اور فتح کی بات کر رہے تھے۔