آواران: دلجان بلوچ کی گمشدگی پر سیمینار، خواتین کی بڑی تعداد شریک

186

آواران میں جبری لاپتہ دلجان بلوچ کی بازیابی کے لیے جاری احتجاجی دھرنے کے دسویں روز دھرنا گاہ میں سیمینار منعقد کیا گیا، اس سیمینار کا انعقاد دلجان بلوچ کے لواحقین نے کیا جس میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما سمی دین بلوچ، بلوچ ویمن فورم کی سلطانہ بلوچ، آسیہ بلوچ اور گلزار دوست نے خطاب کیا۔

سیمینار کا انعقاد دھرنے کے مقام پر کیا گیا جہاں ڈپٹی کمشنر آواران کے دفتر کے سامنے خواتین سمیت عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

اس موقع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما سمی دین بلوچ نے کہا دلجان بلوچ کی گمشدگی بلوچستان میں ایک طویل سلسلے کا حصہ ہے جہاں ہر خاندان کو جبری گمشدگی کا سامنا ہے دلجان جیسے نوجوانوں کو غائب کرکے بلوچ عوام کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے لیکن یہ ظلم ہماری مزاحمت کو مزید تقویت دے رہا ہے۔

بلوچ قوم ہمیشہ اپنے حقوق کے لیے کھڑی رہی ہے، چاہے اس کے لیے ہمیں کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔

انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان میں کوئی ایسا گھر نہیں جہاں جبری گمشدگی کا درد نہ ہو ہمارے لوگ برسوں سے اپنے پیاروں کی تلاش میں ہیں لیکن ان تمام مظالم کے باوجود ہم نے نہ جھکنے کا عزم کیا ہے اور نہ ہی خاموش رہنے کا۔

بلوچ ویمن فورم کی رہنما سلطانہ بلوچ نے کہا بلوچ خواتین ہمیشہ اپنے حقوق کے لیے سرگرم رہی ہیں اور آج بھی وہ اپنی زمین، اپنے بچوں اور اپنے قومی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ دلجان بلوچ کی گمشدگی و بلوچستان میں دیگر جبری گمشدگیوں کے جیسے واقعات بلوچ مزاحمت کو کچلنے کی ایک سازش ہے۔

انہوں نے اس موقع پر کہا یہ تحریک خواتین کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ہماری مائیں، بہنیں، اور بیٹیاں اس جدوجہد میں برابر کی شریک ہیں ہم مظالم کا سامنا کر رہے ہیں لیکن ہماری ہمت میں کوئی کمی نہیں آئی ہم اس تحریک کو جاری رکھیں گے جب تک کہ تمام لاپتہ افراد بازیاب نہیں ہو جاتے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے لاپتہ دلجان بلوچ کے لواحقین میں شریک آسیہ بلوچ نے مقامی انتظامیہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا، “ہم پر دباؤ ڈالنے کے لیے پانی اور کھانے کی سپلائی بند کر دی گئی ہے، اور ہمیں جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں لیکن ہم اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں یہ احتجاج ہمارے دلوں کی آواز ہے اور ہم اپنے پیارے کی بازیابی کے لیے آخری دم تک کھڑے رہیں گے۔”

انہوں نے کہا انتظامیہ ہمارے ساتھ وہ سلوک کر رہی ہے جیسے ہم اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کے مجرم ہوں لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ جدوجہد ایک طویل جنگ کا حصہ ہے، اور ہم اس میں کامیاب ہو کر رہیں گے۔

سماجی کارکن گلزار دوست نے کہا آواران کے عوام نے پیدل چل کر سیمینار میں شرکت کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ظلم کے خلاف متحد ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے ٹرانسپورٹ بند کرنا اور دیگر رکاوٹیں ڈالنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس احتجاج سے خوفزدہ ہیں لیکن ان کی تمام سازشوں کے باوجود، عوام کی شرکت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا یہ سیمینار صرف دلجان بلوچ کی بازیابی کے لیے نہیں بلکہ پورے بلوچستان میں جاری مظالم کے خلاف ایک پیغام ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ دلجان بلوچ کو فوری بازیاب کیا جائے، جھوٹے مقدمات ختم کیے جائیں، اور مظاہرین کو دھمکیاں دینا بند کی جائیں۔

سیمینار کے شرکاء نے متفقہ طور پر کہا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو احتجاجی تحریک کو مزید وسعت دی جائے گی۔ شرکاء نے دلجان بلوچ کی فوری بازیابی، جھوٹے مقدمات کے خاتمے، اور مظاہرین کے خلاف دھمکیوں کو روکنے کا مطالبہ کیا۔