کتاب: بلوچستان اور برطانوی سامراج – تبصرہ: جعفر قمبرانی

384

کتاب: بلوچستان اور برطانوی سامراج

مصنفہ: شازیہ جعفر | تبصرہ: جعفر قمبرانی

دی بلوچستان پوسٹ

یہ کتاب چھ ابواب اور 220 صفحات پر مشتمل ایک بہترین کتاب ہے جو کہ بلوچ قوم کی حکمرانییت، بہادری اور شجاعت کو بہت بہترین انداز میں بیان کرتی ہے۔ کتاب میں بلوچستان میں نوآبادیاتی نظام کی شروعات سے اثرات تک کو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔

کتاب کے پہلے باب میں بلوچستان کی وسیع وعریض سرزمین کے حدود اور جغرافیائی اہمیت کا ایک انتہائی اہم نقشہ کھینچا گیا ہے جس میں دریاوں سے لیکر درے، پہاڑ، ریگستان اور کہی دیگر اہم چیزوں کو زیر تحریر لائی گئی ہے۔ کتاب ہذا کے مطابق بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں سے سکندر اعظم کے تینوں قافلوں میں سے ایک بلوچستان کے درہ مولہ اور وہ خود مکران سے ہوتے ہوئے ایران واپس گئے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتی ہے کہ جنوبی ایشیاء اور مغربی ایشیائی ممالک کے درمیان بلوچستان پل کا کام کرتی ہے جہاں ممالک بحر ہند سمیت مختلف ممالک سے جڑ سکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کو افغانستان تک جانے کیلئے سب سے پہلے ریاست قلات کو یرغمال کرکے قبضہ اور اپنے زیر کرنے کی ضرورت محسوس پڑی۔

بلوچستان کے معدنیات کے حوالے سے کتاب میں شامل حصے قابل رشک ہیں جہاں کرومائیٹ، بروناہیٹ، سنگ مر مر، سونا، چاندی، گیس، لوہا اور گندھک وغیرہ کے بڑے بڑے ذخائر کا بلوچستان کے مختلف علاقوں میں برے پیمانے پر موجودگی ذکر کیا گیا ہے۔

مزید یہ کہ کتاب کے دوسرے باب میں ریاست قلات اور بلوچستان کے حکمرانوں اور خوانین کا تزکرہ کیا گیا ہے جس میں سحرائی، سیوہ قمبر اور احمد کا تزکرہ سر فہرست ہے۔ تاہم کتاب میں بلا تردد سچ لکھتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کہ قلات کی بلوچ مرکزیت کی بنیاد ڈالنے کا سہرا بلوچوں کے میروانی قبیلے کے سر جاتا ہے۔

1511 میر عمر میروانی کا ذکر کرتے ہوئے شازیہ جعفر لکھتے ہیں کہ وہ سردار میرو خان میروانی کے بیٹے تھے اور ان کے بعد قلات کا حاکمیت انکے پاس تھی۔ تاہم انکے بیٹے بجار خان نے حکومت سنبھالنے کے بعد عوام کے ہاتھوں میں دے دی اور خود کہیں گوشہ نشین ہوگئے۔ یوں ریاست قلات کی بھاگ دوڑ مغلوں کے قبضے میں چلی گئی۔

کتاب میں خوانین قلات کا مغلوں سے میروانی، قمبرانی اور پھر احمدزئی خاندان تک کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر میر نوری نصیر خان اور شھید میر محراب خان کے ادوار کو خوب خوب بیان کیا گیا ہے۔

خان نوری نصیر خان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ 1749 سے 1794 تک حکومت کرکے انہوں نے بلوچ سرزمین کو ایک نئے انداز سے بدل دیا۔ میر نوری نصیر خان ہی تھے جنہوں نے بیرون ممالک سے تجارت و دیگر امور پر اپنی بہترین خارجہ پالیسی بنائی۔ ریاست کیلئے قبائلی فوجی نظام محکمہ انصاف و مجلس مشاورت تک انہوں نے تشکیل دی۔
انگزیر دور کے آنے تک کا اخری خان، خان شھید محراب خان کا لکھتے ہوئے کتاب ہذا انہیں قدیم بلوچستان کا پہلا جہد کار اور مزاحمت کار لکھتا ہے کہ انہوں نے ہی 1839 میں انگریز سرکار اور سامراج کے خلاف قلات میری میں بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔

کتاب میں چند ایسے افراد کا ذکر بھی ہے جنیوں نے انگریزوں کا ہالہ کار بن کر شھید محراب خان اور انکی حکومت کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان میں سے چند اہم نام اخوند محمد صالح، اخوند محمد صدیق، ملا محمد حسن اورشاہ شجاع بن تیمور شاہ ہیں۔

یاد رہے کہ شاہ شجاع بن تیمور شاہ وہ شخص تھے جنہوں نے افغانستان سے بھاگ کر خان قلات کے ہاں پناہ لی تھی اور پھر انگریزوں کے ساتھ مل کر اپنے محسن مہراب خان شھید کے خلاف چال چلی تھی۔
اسکے علاوہ کتاب ہذہ میں معاہدہ گندامک، معاہدہ ڈیورنڈ، معاہدہ پامیر، معاہدہ الفنسٹن اور ایران برطانیہ، افغانستان روس معاہدات کا زکر کیا گیا ہے اور خصوصاً بلوچستان پر ان کے شدید جغرافیائی اور سیاسی اثرات کا بھی تفصیلات بیان کئے گئے ہیں۔

تمام ابواب کو مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان کا وسیع وعریض سرزمین انگریزوں کی “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کے تحت سمیٹ کر موجودہ بلوچستان تک محدود کیا گیا ہے۔ برطانوی سامراج کی پالیسی “لالچ دو” کے بنیاد پر خوانین قلات سے مری قبائل، تالپور بلوچوں اور دیگر کو دست وگریباں کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی۔ کراچی ڈیرہ جات سیستان و دیگر بلوچ علاقوں کو بلوچستان سے جدا کردیا گیا تھا۔ اور بلوچ قوم کی تاریخ کو مسخ کرنے اور انہیں آپس میں دست وگریباں کرنے کی غرض سے قوم کو زبان علاقے اور عہدوں کے نام پہ تقسیم کرکے رکھ دیا۔

یقیناً بلوچستان آج جن مسائل کا آماجگاہ بن چکا ہے ان میں سے اکثر انگریزوں کی آمد اور نوآبادیاتی پالیسیوں کے باعث ہی بلوچستان کو درپیش ہے بلاشبہ برطانوی سامراج وہی ہے جنہوں نے بلا سوچے سمجھے اپنی مفادات کیلئے قلات جیسے عظیم ریاستوں گھمبیر صورتحال سے دوچار اور مسائل کا آماجگاہ بناکر چھوڑ دی۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں