میرے بستی کے پھول سے نازل جان (حمیدہ بلوچ)کے نام ۔ ناکو جورک

164

میرے بستی کے پھول سے نازل جان (حمیدہ بلوچ)کے نام

تحریر: ناکو جورک

دی بلوچستان پوسٹ

کبھی سوچتا ہوں کاش موت کا کوئی وجود نہ ہوتا موت نہ ہوتی آج ہم اپنی آنے والی نسلوں کو دیکھ پاتے ہم دیکھ پاتے کہ وہ ہمیں کن الفاظ میں پکارتے ہیں؟ ہم دیکھ پاتے ہم ان سے کیسے کلام کرتے ہیں ؟جو ہمارے دادا پر دادے تھے لیکن افسوس موت برحق ہے جانا ہے لیکِن خوش نصیب ہیں وہ جو جانے کے بعد بھی تاریخ میں کچھ ایسا کر کہ چلے جاتے ہیں جن کو ہر آنے والی نسلیں انتہائی سنہرے لفظوں میں یاد کرتی ہے ۔ ہو سکے وہ جسمانی موجود نہ ہو لیکن اسکی سوچ اسکا فلسفہ ہمیشہ ہر اس انسان دوست اور انسانیت پرست کے اردگرد گھومتی رہتی ہے اور اسکی رہنمائی کرتی ہے جو واقعی حقیقی معنوں میں انسانیت کیلئے کچھ کرنا چاہتی ہے ۔۔آواران جیسے علاقے میں ایک بہادر نڈر اور ایک انتہائی حوصلہ مند جفاکش باصلاحیت سنگت کا بچھڑ جانا ایک قوم کی بدنصیبی ہے جسکو صدیاں لگتے ہیں۔ اس مکام تک پہنچنے میں ۔

کینسر اس ظالم ریاست کی طرح ہے جسکو پتہ ہے کون میرے لیئے خطرہ ہے ۔ لیکن وہ بہادر آخری سانس تک کینسر سے لڑتی رہی وقتی طور بیشک کینسر کی وبا جیت گئی لیکن جب بھی نام کینسر آئے گا ہماری آنے والی نسل اس شیرزال ،سنگت حمیدہ کو یاد کرے گی ۔

کبھی کبھار رشک آتا ہے حمیدہ آپ پہ کتنی چھوٹی عمر میں تم نے کتنا بڑا نام کمایا ۔

یاد ہے حمید ہ میں آپ کو ایک دن کہا کہ میں آپ کا نام ناز کے نام سے اپنے موبائل میں سیو کیا ہے تم نے میرا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کہ ناکو میں کیا شکل سے اتنی بری ہوں جو تم نے میرا نام ناز رکھا ہے۔

لیکن وہ آج پوری دنیا جانتی ہے کہ واقعی آپ ناز ہو کیونکہ کہ پوری قوم کو آپ پہ فخر ہے ۔ آج آپ کے آبائی علاقے کے لوگ آپ کا نام سنتے ہی انکی آنکھیں آب دیدہ ہوتے ہیں اور کہتے ہیں حمیدہ کاش ہم آپ کو جانے نہ دیتے کہ قوم کا ایک قیمتی اثاثہ ہو۔ نازل آج تمہاری ماں کتنی فخر سے تمہاری زندگی کی باب ہر اس آنے والے کو سنا رہی ہے کہ دیکھ رہی ہے جس نے آپ کے ساتھ ایک لمحہ وقت گزارا وہ ترستی ہے آپ کے دیوان اور مجلس کیلئے ۔نازل جان علی صبح مجھے کسی نے جگایا اور کان میں آہستہ سےکہا اٹھو حمیدہ اس دنیا میں نہیں رہی ۔یقین کرو نازل جان میں یہ سوچ کر کتنی بار ٹوٹ جاتا ہوں کہ وہ لمحہ کتنا درد ناک ہوگا کہ گھر میں ماں سدوجان آپ کا ہنس مکھ باپ سامنے بیٹھے ہوں اور آخری بار تم کو اس دنیا سے رخصت کرتے ہوئے دیکھ رہا ہو میں یہ سوچ کر برداشت نہیں کر سکتا سلام ہےسدو جان کو سلام ہے اس ماں کو ۔

نازل جان! میں آپ کا آخری دیدار نا کرسکا ۔کتنا بدنصیب ہوں میں۔ جب بھی سوچتا ہوں اندر ہی اندر ٹوٹ جاتا ہوں۔

نازل جان میں دل پہ پتھر رکھ ماں سے پوچھا کہ یہ واقعہ کس وقت ہوا تو ماں نے ایک لمبی سانس لی کچھ وقت کیلئے انتہائی خاموشی کے عالم میں گئے، یوں لگا جیسے آپ سے گویا پوچھ رہا ہو کہ آپ یعنی نازل خود بتاؤ کہ کس وقت تم نے اس دُنیا سے رُخصت کرنے کا سوچا تھا۔

ایک جھیل کی طرح ماں کے آنکھوں کے اردگرد آنسو ٹہر گئے۔ اجازت نامہ مانگ رہے تھے کہ ہمیں اجازت دو بہنا شروع کریں لیکن ماں کو دیکھ کر اندر ہی اندر سوچنے پہ مجبور ہوا کتنا خوش نصیب ہے جو اتنے درد اپنے اندر چھپا کے رکھا ہے ۔ ماں نے کہا آخری لمحہ مجھے تسلیاں دیتی رہی کہ ماں میرے جانے کے بعد کبھی پریشانی مت کرنا لوگ آئینگے انکے سامنے آنسو مت بہانہ، میں جا رہی شہید میرل جان کے پاس میں وہاں اکیلی نہیں ہوں۔

نازل جان !کاش زندگی وفا کرتی اور تم پھر لوٹ کے وآپس شال آتے دسمبر کا مہینہ آنے والا تمہیں پھر میں ستاتا۔

نازل جان تم سناؤ شہید نجیب جان سے ملاقات ہوئی ہے کہ نہیں اگر ملاقات ہوئی ان سے کہنا بہت بے وفا ہو آج کل خواب میں بھی نہیں آتے ہو۔ ان سے کہنا آپ کے جانے کا بعد ہاوری کاایسا لگتا ہے سرتاج گیا ہو آپ کا قریبی دوست زندان کے نذرہوگیا ہے۔ ماں ہر لمحہ آپ کے خوشبو کو محسوس کرتی ہے آج کل بہت کم بولتی ہے کیا پتا آپ سے گفتگو کرتی ہے؟

شہید نجیب جان کو کہنا کہ تیرے جانے کے بعد تیرے دوستوں کو ہم سنبھال نہیں پا رہے ہیں؟ کیونکہ وہ تجھے سنتے تھے وہ تجھے اپنا مانتے تھے ۔ کوئی رونق نہیں علاقے میں۔

کیا پھر سے اس بستی میں بہاریں لوٹ آئیں گے؟ کیا پھر سے اس فضا میں میرل جان اور تیری خوشبو ہمیں ملے گی؟

نازل جان ! میرل جان سے اگر اپ کی ملاقات ہوئی تو ان ضرور کہنا یار میں ابھی تک موٹر سائیکل نہیں سیکھ پایا ۔تم نے اپنا سفر تو مکمل کر لیا۔ ہم ادھورے ادھورے خوابوں کو لے کے سفر کر رہے ہیں۔اپنےگاؤں کے میدانوں میں ،ان درختوں کے سائیں میں ،ان جھاڑیوں میں،ان کھیتوں میں جہاں ہم کھیلا کرتے تھے ۔جہاں آنے والے وقت کو ہم سنوارنے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔اس سفر کے ساتھی ایک ایک کرکے ہم سے بچھڑ رہے ہیں۔

نازل جان ! شہید رضا سے اگر ملے ان کو کہ آج کل کے نوجوانوں کا ضرور بتا دینا ان سے کہنا کہ آج کل ایک ٹک ٹوک نام کی کوئی چیز آئی ہے جس میں ہر کوئی شہرت کمانے کے چکر میں اپنی معیار کھوچکا ہے۔ ان کو یہ بھی بتا دینا اب علاقے میں کوئی ایسا نہیں جو ان نوک بروت نوجوانوں کی رہنمائی کر سکے ۔ آج کل کے نوجوان کتابوں سے زیادہ زمیاد؛کے سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں آج کل کے نوجوانوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔کیا پھر سے اس بستی میں کوئی رضا جہانگیر پیدا ہوگا؟ میرے آنے والے نسلوں کے لئے ،ان کے رہنمائی کے لئے ۔ہم آج بھی ان گلیوں ، کوچوں ،اسکولوں اور روڈوں پر ایک رضا جہانگیر کو ڈھونڈ رہے ہیں۔

نازل جان ! واقعی ہم یتیم ہوئے ۔

نازل پھل !! ہم کیا بتائے کہ ہم نے کیا کیا کھویا ہے؟

اس بستی کے وہ سب اپنوں کو کھویا ۔ان سچے لوگوں کو الودع کہا ہے۔جن سے ہماری دیوانوں کی زینت ہوا کرتے تھے۔ہماری نسلوں کو ،ان کے ذہنوں کو پختہ سوچ دینے والے ہیروں کو کھویا ہے ہم نے۔اس چمن کے وہ سبھی پھول جن سے اس قوم اور سرزمین کی جدوجہد جڑی ہوئی تھی۔

تمھیں پتا ہے میرے نازلو! جن کو الوداع کہا ہے ان پہ ہمیں آج کتنا فخر ہے ۔ہمارے تاریخ کے پنوں میں تم وہ لوگ ہو جو ہمارا غرور ہو۔ہمارا سر پہ رکھے ہوۓ ایک تاج ہو۔قربانی،خلوص ،جدوجہد ایسے شہادت سب کے حصے میں کہاں آتی ہے؟

امر ہوتے ہیں وہ لوگ جو خلوص اور وفاداری آخری سانس تک کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

تم تاریخ کے پنوں میں امر ہو چکے ہو۔

ہم سلام پیش کرتے ہیں تم لوگوں کے قربانیوں کو ،تم لوگوں کو جدوجہد کو ،تم لوگوں کی وفاداریوں کو۔

الوداع الوداع الوداع

میرے نازل جان۔۔۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں