موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ پسماندہ ممالک کی مدد، اقوام متحدہ کا 300 ارب ڈالر کا معاہدہ

81

اقوام متحدہ نے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے غریب ممالک کے لیے کم سے کم 300 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے جس کا مقصد ان ممالک کی مدد ہے، تاہم بعض ممالک نے اس کو ناکافی قرار دیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں سے جنم لینے والے مسائل کے حوالے سے اقوام متحدہ کے زیرانتظام مشاورتی سیشن آذربائیجان کے شہر باکو میں ہوا، جس میں تیل کی صنعت بھی زیربحث آئی۔

یہ رقم ان پسماندہ ممالک کو دی جائے گی جن کو کوئلے، تیل اور گیس سے چھٹکارا پانے کے لیے نقد رقم کی ضرورت ہے کیونکہ انہی اشیا کے استعمال کے باعث گلوبل وارمنگ ہوتی ہے۔

اسی طرح موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والے نقصانات اور دوسرے مسائل سے نمٹنے کے بھی اسی رقم سے فراہمی ہو گی۔

ترقی پذیر ممالک کی جانب سے 13 کھرب ڈالر کا مطالبہ کیا گیا تھا جس کے مقابلے میں یہ رقم نسبتاً کم ہے تاہم 2009 میں ہونے والے معاہدے کا تین گنا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق ہر سال 100 ارب جاری کیے جانے تھے، یہ معاہدہ اب ختم ہونے کے قریب ہے۔

موجودہ رقم کے حوالے سے مشاورت میں شریک بعض ممالک کے وفود نے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب معاملہ درست سمت میں ہے اور مستقبل میں مزید رقم کا انتظام بھی کیا جائے گا۔

یہ معاہدہ متفقہ طور پر نہیں ہوا کیونکہ اس حوالے سے ہونے والے اجلاس میں زیادہ تر ترقی پذیر ممالک شریک ہوتے ہیں جن کو یہ گلہ رہتا ہے کہ ان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

کوپ29 کے صدر مختار بابائیف نے کسی بھی ملک کی جانب سے رائے آنے سے قبل ہی قبول کر لیا تاہم ساتھ انہوں نے ضرورت کے حساب سے کم، غیرمنصفانہ کہا اور امیر ممالک کو ’کنجوس‘ بھی قرار دیا۔

مشاورت میں شریک انڈیا کی نمائندہ چاندنی رائنا نے اس کو ایک ’معمولی‘ رقم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم اس کو قبول نہیں کر سکتے۔‘

بعدازاں اے پی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ان کو اقوام متحدہ کے طریقہ کار اب اعتماد نہیں رہا۔

کچھ ممالک نے معاہدے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انڈیا کے ساتھ اتفاق کیا جبکہ نائجیریا کی قومی سلامتی کونسل کے سی ای او نے معاہدے کو ’توہین آمیز اور مذاق‘ قرار دیا۔

’میرے خیال میں ہمیں پھر سے سوچنا چاہیے، ہمارے پاس اس کا اختیار ہے کہ اس کو قبول کریں یا نہ  کریں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ہم اسے قبول نہیں کرتے۔‘

اسی طرح بعض دوسرے ممالک کی جانب سے اعتراض سامنے آیا تاہم کچھ ممالک کا خیال ہے کہ اس حوالے سے مزید بات چیت میں غریب ممالک کو ریلیف مل جائے گا۔