رفاقت، سیاست اور قربانی: شہید وشین کی یادیں – آئشمان بلوچ

437

رفاقت، سیاست اور قربانی: شہید وشین کی یادیں

تحریر: آئشمان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ 2013 کی بات ہے، جب میں نے بی ایس او آزاد میں شمولیت اختیار کی۔ ان دنوں ہم سب کم عمر اور خوابوں میں گم تھے، لیکن ایک مقصد کے لیے سرشار بھی۔ حب چوکی زون کے آرگنائزر نے ہمیں پہلی ملاقات کے لیے اپنے گھر بلایا تھا۔ شام کا وقت تھا، موسم خنک تھا، اور میں ایک ایسے پلیٹ فارم کا حصہ بننے جا رہا تھا جسے صرف سیاست نہیں، بلکہ ایک تحریک، خواب اور کارواں سمجھا جاتا تھا۔

اس چھوٹے سے گھر میں داخل ہوتے ہی مجھے مختلف چہرے نظر آئے، کچھ انجانے، کچھ جانے پہچانے۔ ماحول میں ایک عجیب سی سنجیدگی اور جوش کا امتزاج تھا۔ انہی چہروں کے درمیان ایک نوجوان نظر آیا، جس کی سادگی اور عاجزی نے فوراً میرا دھیان اپنی طرف کھینچ لیا۔ وہ سفید لباس میں ملبوس، خاموشی سے کمرے کے ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں میں گہری سنجیدگی اور چہرے پر خلوص کی جھلک تھی۔

جب ہماری نظریں ملیں، تو اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا۔ اس لمحے سے ہی مجھے محسوس ہوا کہ یہ کوئی عام شخص نہیں، بلکہ اپنی خاموشی میں ایک مقصد چھپائے ہوئے ہے۔ میٹنگ کے دوران، وہ زیادہ نہیں بولا، لیکن جب بولا، تو اس کے الفاظ دل کو چھو گئے۔ اس نے کہا، “بی ایس او ہمارے لیے صرف ایک تنظیم نہیں، بلکہ ہماری پہلی درسگاہ ہے۔ اگر ہم نے اسے ختم ہونے دیا، تو ہماری جدوجہد ختم ہوجائے گی۔”

یہ نوجوان وشین تھا، جو ایک غریب محنت کش خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ اپنے والد کے ساتھ پنکچر کی دکان پر کام کرتا تھا، لیکن زندگی کی تمام مشکلات کے باوجود اس کا عزم کبھی کمزور نہیں پڑا۔ وہ ہمیشہ رابطے میں رہتا، اور ملاقات کے لیے بلاتا۔ اس کی باتوں میں ہمیشہ اخلاص اور مقصدیت جھلکتی تھی۔

ایک بار، وشین نے مجھے فون کیا اور کہا، “میں تم سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔” ہم ایک چھوٹے ہوٹل میں ملے۔ اس دن وہ اپنے ساتھ ایک اور دوست کو بھی لایا تھا۔ اس نے کہا، “یہ لڑکا ضد کررہا ہے کہ میں اسے پہاڑوں پر لے جاؤں تاکہ وہ ریاست کے خلاف لڑ سکے۔ تم کیا کہتے ہو؟” میں نے مسکراتے ہوئے کہا، “پہلے اسے سیاست میں شامل کرو، اسے شعور حاصل کرنے دو۔ سیاست ایک ایسا ذہن دیتی ہے جو آگے کے فیصلوں میں مددگار ہوتا ہے۔” وہ ہماری باتوں پر ہنس پڑا، لیکن اس کے چہرے پر ایک سنجیدگی بھی تھی جو ظاہر کرتی تھی کہ وہ اپنے فیصلے پر پختہ ہے۔

وشین اکثر مجھے بی ایس او کے بارے میں اپنی فکر اور محبت کا اظہار کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا، “یہ ہماری پہچان ہے، ہماری پہلی درسگاہ ہے۔ اگر ہم نے اسے ختم ہونے دیا، تو ہم نے اپنی جدوجہد کو ادھورا چھوڑ دیا۔” یہ الفاظ ہمیشہ اس کے عزم کی گواہی دیتے تھے۔

کچھ وقت بعد، وشین نے پہاڑوں کا رخ کیا۔ وہ شرمیلا لڑکا، جس کی آنکھوں میں ہمیشہ معصومیت جھلکتی تھی، ایک سخت جان گوریلا بن چکا تھا۔ جب میں نے فون پر اس سے بات کی، تو میں نے مذاق میں کہا، “وشین، تم لمبی داڑھی اور بالوں میں پہلے سے زیادہ خوبصورت لگ رہے ہو۔” وہ ہنس پڑا، لیکن اس کی ہنسی میں ایک گہرائی اور قربانی کی جھلک تھی۔

اس کے پہاڑوں پر جانے کے بعد بھی ہم کبھی کبھار فون پر بات کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ کہتا، “ہم اپنی زمین کے لیے جو بھی کر رہے ہیں، وہ ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ جدوجہد آسان نہیں، لیکن یہ ہماری پہچان ہے۔

پھر وہ دن آیا جب مجھے وشین کے کوئٹہ میں ایک کارروائی کے دوران شہید ہونے کی خبر ملی۔ یہ خبر میرے لیے فخر اور غم کا امتزاج تھی۔ وشین نے وہی راستہ اپنایا جو اس سے قبل ہمارے دیگر ساتھی اور ہمارے استاد شہید ضیاء عرف دلجان کا تھا۔ اس نے اپنی جان دے کر ثابت کیا کہ وہ اس زمین کا حقیقی سپوت تھا۔

وشین کی قربانی نے مجھے ایک بار پھر یہ احساس دلایا کہ جدوجہد کبھی آسان نہیں ہوتی، لیکن وہ لوگ جو اپنی زمین، اپنی شناخت اور اپنے خوابوں کے لیے قربان ہو جاتے ہیں، ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ وشین، تمہاری یادیں، تمہاری باتیں اور تمہاری قربانی ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ تم نے ایک شمع جلائی، جس کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوگی۔

تم شہید ہو، اور شہید کبھی مرتے نہیں۔ وہ قوم کے حافظے میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، اور ان کی قربانی آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بنتی ہے۔ وشین، تمہارا یہ کارواں کبھی رکنے والا نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں