تشدد، نوآبادیاتی ڈسکورس اور مسلح جدوجہد – برزکوہی

655

تشدد، نوآبادیاتی ڈسکورس اور مسلح جدوجہد

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

جنگ و استعمار زدہ سرزمین پہ در خور اعتناء اور قابلِ تفہیم و تقلید حقائق اور متقضیاتِ وقت تُند و تیز روشنی کے ساتھ ہمیشہ اُن پردوں کے پیچھے منتظرِ دید ہوتے ہیں، جو نہ صرف نوآبادیاتی نظام کی جانب سے انتہائی مربوط و منظم انداز میں لگائے گئے ہوتے ہیں، بلکہ اُن افکار کے مالک بھی دانستہ و نادانستہ طور پر اس میں اپنا حصہ شامل کرلیتے ہیں، جو باطن میں منجمد اصولوں کی تاریک و سیاہ آسیب کے سائے تَلے یوٹپیائی دنیا میں سانس لیتے ہیں۔ ان پردوں کو چاک کرنے اور اپنی آنکھوں کو لافانی حقیقیت کی روشنی سے منور کرنے کیلئے وہ لرزاں ہاتھ کبھی بھی حتمی طاقت سے بہرہ مند ہو کر آگے نہیں بڑھتے جو جنگ میں تشدد برائے تشدد اور مدافعانہ جدوجہد میں جدت و شدت کی فروانی و بہتات کے سامنے ہچکچاہٹ سے پاک نہیں ہوتے۔ من ہی من میں جب کسی نہ کسی تاریک و سیاہ کونے میں نوآبادیات نظام کا ڈسکورس اور بیانیہ مصنوعی حقیقت کا لبادہ پہن کر اپنے پر پھیلاتے ہیں اور ناتواں ذہن کیلئے سامانِ تسکین مہیا کرتے ہیں، تو یہ پردہ روز بروز سیاہ رنگوں کی آسیب کے ساتھ روشنی کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن، آج جب جنگ ایک ناقابلِ فراموش اور در خور اعتناء حقیقت بن کر خود اپنی موجودگی کا برملا اظہار کررہی ہے؛ آج جب نوآبادکار کی کاری ضرب کے خلاف جدت و شدت کی آندھیوں میں لپٹی مدافعانہ جدوجہد متشدد و مہلک وار کے ساتھ دشمن کی نفسیاتی و ذہنی پستگی و خوف کو عیاں کر رہی ہے، ان حالات میں اس پردے کو نہ صرف مکمل طور پر چاک چاک کرکے نیست و نابود کرنا ضروری ہے، بلکہ اُن لرزاں ہاتھوں کی ہچکچاہٹ کے پیچھے نوآبادیاتی ڈسکورس اور مصنوعی حقیقت کے لبادے میں چُھپے بیانیے کو تحقیق و سائنٹیفک سوچ کے ساتھ واضح کرنا بھی لازم و ملزوم امر بن چکا ہے۔ اسی لیے، تشدد کی حقیقی روح اور مینار کو سمجھنے، دہشتگردی و پرامن جدوجہد جیسے نوآبادیاتی ڈسکورس اور بیانیے اور مسلح جدوجہد میں جدت و شدت کی ضرورت کو عیاں کرنے کیلئے تاریخ، تحقیق، وجدان، تفہیم اور فلسفہِ جنگ کا مکمل طور پر ادراک رکھنا ناگزیر ہے۔

مدافعانہ اور نوآبادیات مخالف جنگ میں جب استعمار زدگان اور مظلوم اقوام متقضیاتِ وقت کو مدنظر رکھ کر جنگوں میں جدت و شدت کے ساتھ مہلک ترین ضرب لگانے اور ناقابلِ تلافی ضرر پہنچانے کیلئے زیست و مرگ کی فانی ڈوری کو توڑ کر موت کو بھی گلے لگانے کیلئے کمربستہ ہوتے ہیں تو قابضین و نوآبادکاروں کیلئے تشدد کی انتہا کو پہنچنے اور اپنے ڈسکورس و بیانیے کو حقیقت کی سطح تک لانے کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں بچتا۔ دشمن کے لیے جب جدت و شدت کی آندھیوں میں لپٹی اور جوابی تشدد کے فلسفے میں گوندھی ہوئی جنگ باعثِ خطرہ، باعثِ نفسیاتی شکست ، نفسیاتی دباو و تناو، بے چینی و بے یقینی بن جائے اور وہ اپنی قائم کردہ قبضہ گیریت اور اپنی نو آبادیاتی تسلط جبر و بربریت کو مزید قائم و دائم نہ رکھ سکے، جب وہ مظلوم و محکوم اقوام کی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کو جاری رکھنے، عالمی منڈیوں میں نیلام کرنے کی نوآبادیاتی پالیسی آگے بڑھانے، اُنہیں مزید نوآبادیاتی نظام کا شکار کرکے کالونائزڈ کرنے، ان کی تاریخ و شناخت ، ثقافت، اقدار، عظمت اور قومی خودداری کو مسخ کرنے کے خلاف برسرِ پیکار مدافعانہ مزاحمت یا مسلح جہدوجہد سے گھبراہٹ و بوکھلاہٹ کا شکار ہو جائے، تو وہ مسلح جہدوجہد کی جدت و شدت کو کاونٹر کے لیے صرف انتہائی تشدد کی راہ نہیں اپناتی ہے بلکہ Soft power کی پالیسی کو اپنا کر مختلف طریقوں سے ایسے ڈسکورسز اور بیانیوں کی تشہیر و پرچار کرتی ہے، جس سے نہ صرف اقوامِ عالم کو جائز و حقیقی جدوجہد سے دُور رکھ کر گمراہ کر سکے، بلکہ مظلوم و محکوم اقوام میں اُن اذہان پر قابو پا سکے جو جنگ کے معمار ہوتے ہیں۔ یہ وطیرہ اور روش صرف پنجابیوں کی نوآبادیاتی قوت کی نفسیات اور خصلت نہیں بلکہ تاریخ میں بیشتر نوآبادیاتی یا جدید نوآبادیاتی قوتوں نے ایک طرف جنگ کو کاؤنٹر کرنے کیلئے حد درجہ تشدد اور نسل کشی کی پالیسی کو اپنایا ہے، اور دوسری طرف جائز و برحق مسلح جدوجہد کو بیرونی سازش، دہشتگردی، Grievances اور ترقیاتی منصوبوں کی عدم موجودگی کا ردعمل جیسے ڈسکورس اور بیانیے اپنا کر حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ پالیسی جس کیلئے جنگی ماہرین “سافٹ پاور” کا اصطلاح استعمال کرتے ہیں، کو سمجھنے اور اس کے خلاف کاؤنٹر پالیسی تشکیل دینے کیلئے ہمیں تاریخ کے آئینے میں تحقیق کی نیّت سے قابضین، نوآبادکار اور بالا دست طبقات کی جنگی نفسیات کو جانچنا چاہیے۔

تاریخ کے پنوں میں نوآبادکاروں کی جانب سے نوآبادیاتی ڈسکورسز اور بیانیوں کی تشہیر کی نظیر ملتی ہے، جنہیں پوسٹ کالونیل مصنفین و ماہرین واضح کر چکے ہیں۔ مثلاً، 1952 میں برطانوی نوآبادکاروں کے زیرِ قبضہ افریقی ملک کینیا میں دیدان کِماتی کی سرپرستی میں مسلح جدوجہد کرنے والی تنظیم ماؤ ماؤ(Kenya Land And Freedom Army) نے جب برطانیہ کی نوآبادیاتی فوج اور آبادکاروں کے خلاف ہتھیار اُٹھا کر جوابی تشدد میں شدت لائی، تو برطانوی اخباروں سمیت آبادکاروں نے نہ صرف ماؤ ماؤ بلکہ کینیا کے لوگوں کو “وحشی”، “دہشتگرد”، غیر تہذیب یافتہ اور سفاک کہہ کر اپنے بیانیے کو مظبوط رکھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنے قبضے کو دوام بخشنے اور کینیا کے وسائل کو بے دریغ لوٹنے کیلئے نہ صرف نسلی کشی اور Collective punishment کا پالیسی اپنایا، بلکہ نوآبادیاتی ڈسکورس کو حقیقت کا لبادہ پہنانے کی حد درجہ کوشش کی۔ انہی ناجائز نوآبادیاتی پالیسیوں کو کینیا کے مشہور افسانہ نگار، ناول نگار اور پوسٹ کالونیل تنقید نگار گوگی وَ تیانگو نے اپنی تصنیفات میں واضح طور پیش کیا۔ مثلاً اپنے حقیقت پہ مبنی ایک افسانے(The Martyr) میں وہ کینیا کی آزادی کی جدوجہد میں سرگرم تنظیم ماؤ ماؤ اور برطانوی آبادکاروں کی ذہنیت کی بہترین انداز میں عکاسی کرتے ہیں۔ اس کہانی میں جب ماؤ ماؤ کی ایک خفیہ جہدکار و نیگرو نوکر اپنے اُن برطانوی مالک اور مالکن کو قتل کردیتا ہے جو استحصالی عزائم کے ساتھ ساتھ کینیا کی ثقافت و تشخص کو مسخ کرنے میں ملوث تھیں، تو یہ خبر کینیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ کینیا کے لوگوں کی زمینوں پہ قبضہ کرنے والے برطانوی آبادکاروں کے دلوں میں خوف کے ساتھ ساتھ نفرت کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے اور وہ اپنے گھروں میں کام کرنے والے غلاموں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اس کہانی میں گوگی نے برطانوی آبادکاروں کے بیانیے کو خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ مثلاً دو برطانوی آبادکار(میاں بیوی) ایک برطانوی خاندان کے گھر جاکر اس واقعہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کرداروں میں ایک کردار مسٹر ہِل اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ افریقی لوگوں کے ساتھ صبر و تحمل سے پیش آنے اور اُنہیں سمجھنے سے ہم اُنہیں “تہذیب یافتہ” کر سکتے ہیں، جبکہ دوسرے کردار مسسز ہارڈی اور سمائلز یہ کہتے ہیں یہ لوگ “وحشی” ہیں جنہیں تہذیب سے آراستہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سفاک و ظالم ہیں جن کا مقصد دہشتگردی و سفاکیت ہے۔ اسی نقطے کو واضح کرنے کیلئے گوگی اپنی کتاب Something Torn and New:An African Renaissance میں لکھتے ہیں کہ “جب نوآبادکار کسی زمین کو کالونی بناتے ہیں تو وہ ایک نئی ذہنیت و یاداشت کو پلانٹ کرنے اور پرانی ذہنیت و یاداشت کو دفن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔”

مندرجہ بالا کہانی نہ صرف کینیا میں برطانوی نوآبادکاروں کی ذہنیت اور منظم ڈسکورس کی عکاسی کرتی ہے بلکہ نوآبادیاتی نظام کی تشریح بھی کرتی ہے۔ یہ کہنا کہ ہم “انہیں تہذیب یافتہ کریں گے”، ایک ایسی ذہنیت ہے جو دنیا کے بیشتر قابضین اور نو آبادکاروں میں پایا جاتا ہے۔ اور جب اُن کے خلاف سیاسی و مسلح جدوجہد کی جاتی ہے تو اُنہیں امن دشمن، انسانیت دشمن، شدت پسند، پلانٹڈ اور بیرونی طاقتوں کا آلہ کار کہا جاتا ہے۔ وہ ان ڈسکورسز اور بیانیوں کی تشہیر اس لیے کرتے ہیں تاکہ اپنے ناجائز قبضے کو دوام بخش سکیں اور اقوامِ عالم سمیت قوم کو مصنوعی و خود ساختہ حقیقت سے گمراہ کر سکیں۔ اسی نقطے کو فرانز فینن اپنی کتاب Wretched of the Earth میں یوں بیان کرتے ہیں کہ، “محکوم قوم کی تشدد نوآبادکار کی تشدد کے خلاف ردعمل سے بڑھ کر نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی نوآبادکار ایک منظم منصوبے کے تحت اپنے متشدد طریقۂ کار سے انکار کرتی ہے اور محکوم قوم کی جدوجہد کو پیدائشی بربریت کا نام دیتی ہے۔”

نوآبادکاروں کی جانب سے مدافعانہ اور جائز حقِ آزادی کی جنگ لڑنے والے جہدکاروں کی جوابی تشدد میں جدت و شدت کے نقطے کو ہمیشہ سے ہی انہی ڈسکورسز اور بیانیوں کے ساتھ دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، اُن کے متعلق یہ کہا گیا کہ یہ چند “مٹھی بھر عناصر” ہیں جنہیں عوامی حمایت و ہمدردی حاصل نہیں بلکہ یہ بیرونی آلہ کار ہیں۔ یہی وطیرہ اور ناکام پالیسی کا عکس ہمیں ویتنام کے جنگ میں بھی ملتا ہے۔ ویتنام میں آزادی کی جدوجہد میں مسلح تنظیم ویت کانگ کے متعلق امریکہ کی نوآبادیاتی ذہنیت کی ایک واضح مثال ہمیں امریکہ کے سابقہ اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ فار فارن ایسٹرن افئیرز، روجر ہیلرزمین کی مضمون Plea For Realism in South Asia میں ملتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ “جنوبی ویتنام کے حالات کا تجزیہ غالباً ہمیں اس نکتے کو پرکھنے سے شروع کرنا چاہیے کہ ہم ایک (جائز)جنگ کا سامنا نہیں کر رہے ہیں۔ اس میں جنگ نہیں دہشتگردی کے عناصر سرگرم ہیں۔ چودہ ملین کی آبادی میں کمیونسٹ ویت کانگ کے روایتی سپاہیوں کی تعداد صرف اٹھائیس ہزار ہے اور اس کے ہم فکر و ہمکاروں کی تعداد صرف ساٹھ سے اسّی ہزار ہے۔ یہ مہم 1930 کی دہائی کے نو عمر دہشتگروں کے گینگ کی جنگ لگتی ہے۔” اسی نقطے کو اگر پنجابی نوآبادکاروں کے بیانیے سے موازنہ کریں تو کوئی بھی فرق واضح نہیں ہوتی۔ وہ بھی بلوچ قومی جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کیلئے ایسے ہی ایکسپائرڈ و فرسودہ ڈسکورسز و بیانیوں کی تشہیر کا سہارا لے رہے ہیں تاکہ اپنے نوآبادیاتی عزائم کو دوام بخشنے کی ناکام کوشش کر سکیں۔

نوآبادکاروں، بالا دست طبقات اور قابضین کی اسی ناکام پالیسی کو نامور مصنف رابرٹ ٹیبر اپنی کتاب War of the Flea واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “اس جنگ، یعنی گوریلا جنگ کو بہتر طور پر سمجھنے کیلئے دو اہم Pitfalls سے گُریز کام کرنا پڑے گا۔ یہ دو ایسے پیچیدہ عناصر ہیں جن میں ماہرینِ انسداد بغاوت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پہلا Pitfall سازش کا نظریہ ہے۔ اس نقطہء نظر کے مطابق انقلاب مصنوعی ملاپ کے عمل کا پیداوار ہے اور گوریلا کے عمل کا مرکز بیرونی لوگوں، سازش رچانے والوں، زیرِ زمین سیاسی کھلاڑیوں کی پیدا کردہ ہے جو اکثر سیاسی ماحول کے پردے کے پیچھے رہ کر اس جنگ کو اپنے مفادات کی انجام تک پہنچانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔” دوسرے نظریے کو بیان کرتے ہوئے رابرٹ مزید لکھتے ہیں کہ دوسرا نظریہ “خام خیالی کا طریقہ ہے۔ یہ ایک پرانہ نقطہء نظر ہے جس میں یہ مانا جاتا ہے کہ گوریلا جنگ صرف اُن تکنیک اور حربوں کی تشخیص و استعمال کا نام ہے جن کو کوئی بھی شخص اپنے ضرورت کے تحت اپنا کر کسی بھی غیر روایتی جنگ کے حالات میں استعمال کر سکتا ہے۔” یعنی یہ جنگ صرف اُنہی افراد کی استعمال کردہ ہے اور اس میں عوامی حمایت و ہمدردی کا عنصر وجود نہیں رکھتا۔ لیکن بقولِ رابرٹ ٹیبر، “پہلا نقطہء نظر ناتجربہ کاری و سادہ لوحی اور بدگمانی پہ مبنی ہے۔ یہ غیر متغیر طور پر مغربی آزاد خیالی(لبرل ازم) کے نظریے اور سیاسی جمہوریت کے آرزو کی عکاسی کرتی ہے۔ یقیناً یہ فکر عوامی فیصلوں پر اعتماد کرنے کی کمی کو ظاہر کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ لوگ سادہ لوح، جاہل، غیر مہذب اور غیر فعال ہیں جو اپنے بارے میں سوچ نہیں سکتے اور انقلابی جنگ کی خواہش و گنجائش نہیں رکھ سکتے۔” کیا ہمارے چند جہدکار اور نام نہاد دانشور اسی لبرل ازم کے نظریے کے شکار نہیں ہیں؟۔

ہم جب تاریخ کا دریچہ کھول کر نوآبادیاتی نظام کے خلاف مسلح جدوجہد کے خلاف قابضین کی متشدد اور پروپگیشن کی پالیسیوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس پہلو کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کے موارل کو گرانے سے بچانے اور دنیا کے سامنے ایک مبہم و غیر واضح سچائی کو عیاں کرنے کیلئے کتنے فسطائیت اور سفاکیت کے ساتھ اپنے تمام تر حربے استعمال کرتے تھے۔ فوجی کاروائیوں، چھاپوں، قتل عام، نسل کشی اور اجتماعی سزا کے علاوہ وہ اپنے آلہ کاروں، نام نہاد صحافیوں، اخبار و چینلوں اور نام نہاد جمہوریت و جمہوری جدوجہد کی پرچار کرنے والوں کو فعال کرکے جائز و برحق جدوجہد کی کامیابیوں کو من گھڑت، بے بنیاد، سفاکیت، دہشت و ظلم و جبر ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کا سہارا لیتے تھے۔ اسی پہلو کے متعلق رابرٹ ٹیبر کی کتاب War of the Flea کا حوالہ قابلِ غور ہے جس میں وہ برطانوی نوآبادکاروں کے خلاف آئرش ریپبلکن آرمی کی مسلح جدوجہد کے متعلق برطانوی قابض حکمرانوں کا بیانیہ واضح کرتے ہیں۔ یعنی، اُن کے بقول، “برطانوی نقطۂ نظر کے مطابق آئی آر اے کی بیشتر کاروائیاں صرف بکواس و بے بنیاد تھیں۔ اخبار خون کے بجائے سیاہی سے بھرئے ہوئے تھے۔ اکثر و بیشتر آئی آر اے کے مسلح افراد کے نشانے ٹارگٹس پر لگنے کے بجائے خطا ہوتے تھے۔ وہ بیرکیں جو جلائی گئی تھیں، وہ خالی تھیں اور اتنی تباہی صرف علامتی تھی؛ بسا اوقات مسلح افراد کے ہاتھوں نشانہ بننے والے انگریزوں کے بجائے آئرش تھے۔” حالانکہ یہ پروپگیشن زمینی حقائق کے برعکس تھے جس کی تشریح رابرٹ ٹیبر نے اپنے کتاب میں کی۔ اُن کے مطابق برطانوی فوج سمیت نوآبادیاتی حکمران آئرلینڈ کے مختلف شہروں میں اپنے عزائم کو برقرار رکھنے میں اس حد تک خوف میں مبتلا تھے کہ اُن کی نظر میں ہر شہری آئی آر اے کا شہری رضاکار تھا۔

نوآبادیاتی ڈسکورس اور بیانیئے کی ہئیت کی بنیادوں کو اگر تلاشنے کی کوشش کی جائے تو ہمیں اس سلسلے میں مشہور اسرائیلی مصنف اور پوسٹ کالونیل تنقید نگار ایڈورڈ سعید کی Orientalism کو زیرِ غور کرنا پڑیگا۔ اس کتاب میں وہ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک ڈسکورس کو تنقیدے جائزے کے بعد پیش کرتے ہیں جسے اورئنٹ اور اوکسیڈنٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اوریئنٹ یعنی مشرق اور اوکسیڈنٹ یعنی مغرب۔ ایڈورڈ سعید اس کو مزید واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مغربی ادباء، دانشوارن، تجزیہ گار اور مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے مصنفین نے اپنے تصنیفات میں اس ڈسکورس کو سامنے لانے کی سعی کی ہے کہ مشرق(ایشا، وسطی ایشیا اور افریقہ) کے لوگ جاہل، وحشی، سفاک اور غیر تہذیب یافتہ ہیں جہاں معمولاتِ زندگی انتہائی خستہ حال ہیں۔ انہوں نے مشرقی تہذیب، ثقافت اور رسم و رواج کو فرسودہ و غیر انسانی قرار دیا ہے۔ مثلاً اپنی کتاب میں وہ جوسف کارنرڈ کی تصنیف Heart of Darkness پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں یہ اُسی بیانیے کی عکاسی ہے، کیونکہ اس کتاب میں افریقی سماج اور ثقافت کو بدترین طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں سعید کہتے ہیں کہ مغرب میں اورئینٹ کے متعلق یہ سوچ و فکر پایا جاتا ہے کہ وہاں کے لوگ زندگی جینے کے اصولوں سے ناواقف ہیں اور اُن کے درمیاں آپس میں چپقلش اور لڑائیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ نقطے نوآبادیات کی تاریخ میں روز روشن کی طرح عیاں ہیں جہاں مغرب سمیت مشرق کے ممالک بھی استعمار زدہ اور مظلوم اقوام کے خلاف ایسے ہی ڈسکورسز کے ساتھ اپنے قبضے کو دوام بخشنے کی تگ و دو کرتے تھے۔ اگر عوامی سطح پر مزاحمتی تحریک چلتی بھی تو اسی ڈسکورس کے سانچے میں پلنے والے نوآبادیاتی دانشور، صحافی، لبرل اور سیاستدان یہ کہتے کہ متشدد تحریک ایک بربریت اور سفاکیت ہے جو اخلاقی پیمانے میں بھی جائز نہیں ہے۔ دوسری جانب فرانز فینن اپنی کتاب The Wretched of the Earth میں اس نقطے کے متعلق لکھتے ہیں کہ “جب بھی کالونائزڈ نوآبادکاروں کے خلاف مزاحمت کرنے کیلئے اُٹھ کھڑی ہوتی ہے تو اُسے کہا جاتا ہے کہ یہ نامعقول اور غیرشعوری عمل ہے۔ اُسے اخلاقیات اور شرافت کا درس دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اُن کا انقلاب جارحانہ نہ ہو۔”

مندرجہ بالا تمام در خود اعتنا پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر ہم بلوچ قومی تحریک میں قابض پاکستان کی سافٹ پاور اور متشدد پالیسی کے ساتھ ساتھ اُن نام نہاد قوم پرستوں اور دانشوروں کی فرسودہ سوچ کے پیچھے اصل حقیقت کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ آج جب بلوچ قوم شعوری بنیادوں پر جنگ میں شدت اور جدت کے فلسفے کو قبول کرتے ہوئے تحریک کا حصہ بن کر دشمن کو دفاعی پوزیشن میں دھکیل رہی ہے تو دوسری جانب قابض ریاستی حکام سمیت شعور سے عاری دانشور اور سیاستدان اسے ایک ہی پیرائے میں دیکھ رہے ہیں۔ اُن کے نزدیک جنگ میں مہلک ترین حکمت عملی سفاکیت، جارحیت اور خون آشام جنونیت کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ لیکن دوسری جانب قابض پاکستان قومی وسائل کی لوٹ مار، نسل کشی، تشخص و شناخت، اجتماعی نفسیات اور فلسفے کو جس تیز رفتاری سے مسخ کر رہی ہے، اگر ان معاملات میں پرامن جدوجہد، سیاسی انشورٹی، عالمی قوتوں کی مثبت مداخلت وغیرہ پر توجہ مرکوز کی گئی تو ہم سے بدتر قوم کوئی نہیں ہوگا۔ اگر جنگ کی جدید شکل کو بھی اورئنٹل اور کالونیل ڈسکورس تَلے سفاکیت، جارحیت، جنونیت کے طور دیکھا گیا تو یہ ایک ایکسپائرڈ و فرسودہ ذہنیت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ جائز و ناجائز کا پیمانہ اُسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے جس کے پاس طاقت ہوتا ہے۔

نوآبادیاتی قبضے کے خلاف مدافعانہ جنگ میں تشدد کو سیاسی مقاصد کے طور پر استعمال کرنا ہی قابض افواج کو جارحیت سے دفاعی پوزیشن کی جانب دھکیل سکتی ہے۔ اس سلسلے میں خود کو قربان کرنے کا شعوری عمل نہ صرف عظیم مقصد سے مکمل اعتماد کی عکاسی کرتی ہے بلکہ طاقت کی تشریح کے سامنے ایک ایسی لکیر کھینچتی ہے جو اس امر کو واضح کرتی ہے کہ تہذیب کے معمار وہ ہیں جو کسی بھی قیمت پر اپنے برحق آزادی کی جدوجہد سے سمجھوتا نہیں کرتے، نہ ہی خوش فہم و خام خیالی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ تشدد برائے تشدد کے فلسفے کو اس لیے اولین ترجیحات میں شامل کرتے ہیں کیونکہ دنیا میں صرف طاقت ہی سے قومی تشخص، خودداری، بقا اور شناخت کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ بقولِ فینن، “ڈی کالونائزیشن کا عمل کبھی بھی Gentleman agreement سے حل نہیں ہوتا کیونکہ نوآبادیات تشدد ہی کی بدولت وجود رکھتی ہے اور جاری رہتی ہے۔”

آج بلوچ قوم شعوری بنیادوں پر جنگ کی جدت و شدت کو قبول کر چکی ہے اور عسکری محاذوں پر نہ صرف شمولیت کر رہی ہے، بلکہ خود کو وطن کی دفاع میں فدا کرنے میں زرہ برابر بھی ہچکچاہٹ کا سامنا نہیں کر رہی ہے۔ اس خوش آئند صورتحال میں مطمئن ہونے کے بجائے جنگ کو مزید وسعت دینے اور دشمن کو نفسیاتی تناؤ اور کشیدگی کی جانب دھکیلنے کیلئے کوشاں رہنا چاہیے۔ زاتی تسکین و آسائش، کمفرٹ زون اور فرسودہ سوچ اور عالمی قوتوں کے سامنے پیشانی رگڑنے اور منت و سماجت کرنے کے بجائے دشمن کے بیانیوں اور ڈسکورسز کو عملی اقدامات کی توسط سے توڑنا چاہیے۔ پرامن جدوجہد کے راستے ایک وحشی و ظالم قابض ریاست کے سامنے شروع سے ہی مسدود ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ نوآبادکار صرف تشدد کی زباں کو ہی سمجھتی ہے۔ اسی پہلو پر ہو چی منھ لکھتے ہیں کہ “اگر گاندھی یا ڈی ویلیرا(آئرش انقلابی) کسی فرانسیسی کالونی میں پیدا ہوتے تو وہ دوسری دنیا کو سدھار چکے ہوتے۔” اگر اسی تناظر میں ہم دیکھیں تو کیا پنجابی ریاست فرانسیسی نوآبادکار سے کئی گنا زیادہ سفاک اور دہشتگرد نہیں ہے؟

جس انداز میں آج دشمن جبر و تشدد کا ہر دستیاب حربہ انتہاوں کے ساتھ بلوچ پر برسا رہا ہے، اسے کونسا عدم تشدد کا فسلفہ روک سکتا ہے؟ حقیقت کے آنچل کو تھام کر تجزیات کے گھوڑے دوڑاو تو انسدادِ تشدد کے دو ہی رستے گذرتے نظر آئیں گے، کان پکڑ کر، توبہ تائب ہوکر آزادی کے جنگ سے دستبردار ہوجاو، یا پھر جوابی تشدد کے ہتھوڑے کو اس شدت سے دشمن کے سرپر مارو کہ وہ پھر ردعمل کے خوف سے تشدد کرنے سے کترائے۔

اب یہ عالمی اصولوں والے تکراری بتائیں کہ انسداد بغاوت کے نام پر پاکستان نے ایسی ایک بھی عالمی قانون توڑنے سے نہیں چھوڑی، جو انسانی وقار و حقوق کی تحفظ کیلئے تشکیل پائی تھی، اس پر دنیا اور دنیا والوں کی متحدہ ٹس سے مس تک نہیں ہوتی، اور پھر اس پر دلالت کہ مظلوم کے گردن پر جب خنجر پِھر رہی ہوئی تو قاتل کی آنکھیں نا نوچے بلکہ میر کی طرح بولے “حضور آھستہ، جناب آھستہ” اور دبے الفاظ میں ایک پریس ریلیز لکھوائے کہ ” ہم انسان والے حقوق کی دکانوں اور مہذب اقوام عالم سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری پھِینٹی لگنے سے بچائیں” اب اس لنگڑی منطق پر ہم اگر دہشتگرد کہلائے، جی ہزار بار دہشتگرد، لیکن پہلے گردن بچائیں گے، پھر منصفی کی اپیلیں کریں گے، چاہے اپنی گردن بچاتے بچاتے ظالم کی گردن اور اصولات عالم کی ڈوری ہی نا کٹ جائے۔

اب اسی بات کو جناب نطشے صاحب کے فلسفے سے سمجھیں تو وہ کہتا ہے کہ کمزور اور طاقتور کے درمیان ایک واضح فرق ہے۔ اور یہ دنیا بنیادی طور پر طاقت کی جدوجہد پر مبنی ہے، وہ کمزور افراد یا قوموں پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کمزور لوگ “غلام اخلاقیات” (Slave Morality) کو اپناتے ہیں، جہاں عاجزی، ہمدردی اور انکساری جیسی خصوصیات کو سراہا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی بے بسی کا جواز پیش کر سکیں۔ جی، طاقت میں انکساری بزرگی ہے، کمزور کی انکساری، محض بزدلی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں