بیڑ فیتھ اور عورت – زامُر بلوچ

416

بیڑ فیتھ اور عورت

تحریر: زامُر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عورت کو ہمیشہ سے صنف نازک کا لقب دیا گیا ہے.  شاعروں کی شاعری میں اس کے زلف، ہونٹ، رخسار، اس کے پائلوں کی چنچناہٹ اور  چوڑیوں کی کھنک کو دنیا میں رنگینیت کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ مگر وہی چوڑیوں سے بھری کلائی اور صراحی انگلیاں جب ایک نظریے کو مضبوطی سے تھام لیں تو دنیا کی ہر طاقت اس کے سامنے مانند پڑ جاتی ہے۔ عورت جب ایک ماں ہوتی ہے تو اس کے پاؤں تلے جنت ہے، جب وہ ایک بیوی یا منگیتر ہے تو وہ دنیا میں محبت کی سب سے خوبصورت شکل ہوتی ہے اور جب وہ ایک بیٹی ہوتی ہے تو شفقت کا ایک پیکر ہے۔ لیکن جب یہی عورت انقلاب کا لبادہ اوڑھتی ہے تو یہ کھنک ایک گونج بن کر مخالف کے لیے تباہی ثابت ہوتی ہے۔
سارتر اپنی کتاب “Existentialism is humanism” میں کہتا ہے کہ انسان اپنے وجود کو خود ایک نام اور کردار بخشتا ہے۔وہ جو بھی کرتا ہے ایک Free will کی بنا پہ کرتا ہے۔ وہ ایک چوراہے پہ کھڑا ہے اور اپنا راستہ خود اختیار کرتا ہے۔

بلوچ عورت آج ایک ایسے چوراہے پہ کھڑی ہے جہاں اسے کئی راستے نظر ائیں گے۔ اس بات کو وضاحت کی ضرورت نہیں کہ بلوچستان اور بلوچ قوم اج کس دور سے گزر رہا ہے۔ بلوچ قوم حالت جنگ میں ہے۔ ایک ایسی جنگ جہاں ہر کسی کو اپنا حصہ دینا ہوگا۔ تو اس حالت میں ایک بلوچ عورت کو کیا کرنا چاہیے؟کیا وہ ماہ رنگ بن کر قانون اور ائین کے تحت اپنے حقوق مانگتی پھرے۔کئی کئی دن سردیوں کی یخ بستہ موسم ہو یا گرمیوں کی جلستی دھوپ ہو اپنے پیاروں کے لیے اواز بلند کرے یا فدائی ماہل بن کر قلم سے کلاش تک کا سفر طے کرے؟

جب بات بلوچ عورت کی اتی ہے تو اس کے لیے فیمینزم Feminism کچھ اور ہی ہے۔ وہ ایک روایتی فیمینسٹ نہیں ہوتی۔ اس پر “میرا جسم میری مرضی” جیسے نعرے لاگو نہیں ہوتے ۔ وہ ایک پدری نظام سے بڑھ کر ایک ریاستی جبر تلے جی رہی ہے۔ ایسے کئی بلوچ خواتین ہیں جو نہیں جانتے کہ وہ کسی کی بیوی ہیں یا بیوہ، ایسی بیٹیاں جنہیں معلوم نہیں کہ وہ یتیم کی زندگی جی رہے ہیں یا نہیں اور ایسی مائیں جو نہیں جانتی کہ وہ اپنے بچوں کے لیے حفاظت کی دعا کریں یا مغفرت کی۔  بلوچ عورت گھریلو مسائل سے پرے, بلوچ قومی دھارے میں اتر چکی ہے۔ وہ اس معاشرے میں مردوں کے خلاف نہیں بلکہ اپنے بھائی، بیٹوں اور والد کے لیے اوازیں بلند کرتی ہیں۔   خوا وہ سیاست کا میدان ہو یا مسلح جدوجہد کا ایک بلوچ عورت کو اپنا راستا چننا ہوگا۔ اسے اپنے دشمن کو پہچاننا ہوگا۔ کوئی بھی شخص ایسے حالات میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ ایک دھوکے میں جی رہا ہے۔ سارتر اس دھوکے کو بیڈ فیتھ کا نام دیتا ہے۔ جب انسان اپنے آس پاس کے حقائق کو ان دیکھا کرتا ہے اور اپنے تمام تر ذمہ داریوں سے دستبردار ہوتا ہے وہ بیڈ فیتھ میں جی رہا ہے۔ اس چوراہے پہ زندگی بھر کھڑے رہنے کی وجوہات کا دوسرا عنصر خوف ہے۔ خوف اور ڈر کے زد میں آنا ایک فطری عمل ہے لیکن اس کو اپنی ذات پر حاوی کرنا انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔

مشیل فوکو، ایک فرانسیسی فلسفہ نگار تھے جو لوگوں کی آزادی پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے پنوپٹک ایفیکٹ کے بارے میں ایک نظریہ پیش کیا۔یہ ایک ایسا قید جب ایک طاقت کے مسلسل نگرانی کو خود پر محسوس کیا جاتا ہے۔ آخر کار یہ قید ایک اندرونی نظام میں تبدیل ہو جاتا ہے اور انسان اپنا نگران خود بنتا ہے اور باہر بیٹھا طاقت ہر ایک فرد میں اس قید کو انسٹال کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ فوکو نے یہ بھی محسوس کیا کہ انفرادی طور پر، ہم مختلف طریقوں سے حالات پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔  معاشرے میں طاقت کی نوعیت پر  اس نے لکھا ہے کہ طاقت ہر فرد  تک پہنچتی ہے، ان کے جسموں کو چھوتی ہے اور خود کو ان کے اعمال اور رویوں، ان کی گفتگو، سیکھنے کے عمل اور روزمرہ کی زندگی میں داخل کرتی ہے۔

اب یہ اس انسان کے اوپر انحصار کرتا ہے کہ وہ اپنے اس خوف کے قید میں زندگی بھر مقید ہو کے رہ جاتا ہے یا اپنے ارد گرد ایسے سنگلاخ سلاخیں کھڑا کرتا ہے جنہیں پھلانگنا کسی بھی طاقت کی بس کی بات نہ ہو۔ اور بلوچ عورت ایسا کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ وہ مزاحمت کی ایک حسین شکل بن کر اپنے اندر کی اضطراب کو متحرک کر کے اپنی لڑائی لڑ رہی ہے۔ انفرادی گمنامی اور رازداری ہو یا مضطرب سمندر کی موجوں کی طرح ٹہاتیں مارتی دشمن کے روبرو کھڑی ہو،بلوچ عورت کے کندھوں پر یہ جنگ اتنا ہی فرض ہے جتنا ایک بلوچ مرد پر۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں