بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بولان میڈیکل کالج (بی ایم سی) کے طلبہ کا احتجاج چوتھے روز بھی جاری رہا۔ طلبہ کالج اور ہاسٹلز کی بحالی کے ساتھ ساتھ گرفتار طلبہ کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
احتجاجی مظاہرین نے بی ایم سی کے مرکزی دروازے کے باہر دھرنا دے رکھا ہے، جہاں سخت سرد موسم کے باوجود بڑی تعداد میں طلبہ شریک ہیں۔
مظاہرین نے کالج انتظامیہ اور پولیس اہلکاروں پر الزام عائد کیا کہ ہاسٹلز پر سیکیورٹی فورسز کے “غیر قانونی قبضے” کی سازش کی جا رہی ہے، جس سے تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ ہاسٹلز اور کلاسز کی بندش ان کے بنیادی تعلیمی حقوق کی خلاف ورزی اور ان کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
طلبہ نے پولیس کی حالیہ کارروائیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جن میں مبینہ طور پر ہاسٹل پر چھاپے مارے گئے، کئی طلبہ گرفتار، زخمی، یا بے ہوش ہوئے۔
طلبہ تنظیموں نے ان کارروائیوں کو بلوچ نوجوانوں کو تعلیمی میدان سے دور رکھنے کی سازش قرار دیا۔
ایک احتجاجی طالب علم نے کہا، “ہمارا واحد جرم تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ہے حکومت منظم طریقے سے ہمیں تعلیمی مواقع سے محروم کر رہی ہے۔
طلبہ نے حکام پر الزام لگایا کہ وہ بلوچ اور پشتون طلبہ کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور تعلیمی اداروں کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔
مظاہرین نے اعلان کیا کہ وہ اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوں کو فوجی اڈے بنانے کی کسی بھی کوشش کی مزاحمت کریں گے۔
طلبہ نے خبردار کیا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو احتجاج کا دائرہ بلوچستان بھر میں پھیلایا جائے گا۔ انہوں نے کہا، “یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہاسٹلز اور کالج دوبارہ نہیں کھولے جاتے اور گرفتار طلبہ کو رہا نہیں کیا جاتا۔