بولان میڈکل کالج میں پولیس کی جانب سے بلوچ طالبعلموں پر بدترین تشدد اور گرفتاریاں سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہیں۔ بساک

82

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں ہونے والے پولیس کی بلوچ طالبعلوں پر تشدد اور گرفتاری کے افسوسناک واقعات کی ںھرپور مزمت کرتے ہیں، ایک سوچے سمجھے سازش کے تحت بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں پولیس اور فورسز کےلیے راہیں ہموار کی جارہی ہیں اور اسی منصوبے کے تحت ایک معمولی مسئلے کو جواز بنا کر کوئٹہ پولیس نے بولان میڈیکل کالج پر دھاوا بول کر تمام ہاسٹلز پر قبضہ جمالیا۔ طالبعلوں کو زبردستی کمروں سے نکال کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گر پورے کالج کو جنگ کا میدان بنا دیا گیا۔ کالج کے اندر طالبعلموں پر اندھا دھند آنسو گیس کے شیل برسائے گئے جس سے کئی طالبعلم زخمی اور بے ہوش بھی ہوگئے۔

ترجمان نے کہاکہ ہاسٹلز پر دھاوا بولنے کے بعد جب تنظیم کی جانب سے مین گیٹ پر احتجاجی دھرنا دیا گیا جس میں بلوچ طالبات بھی شامل تھے۔ کوئٹہ پولیس نے تمام تر روایات کو پامال کرتے ہوئے گیٹ پر جاری احتجاجی دھرنے پر بڑی نفری کے ساتھ حملہ کیا، فیمیل اسٹوڈنٹس کو زدوکوب کیا گیا، ناروا زبان استعمال کیا گیا،آنسو گیس کے شیل مارے گئے اور یہاں بھی کافی طالبعلم جن میں خواتین بھی شامل ہیں زخمی اور بے ہوش ہوئے اور انہیں ہسپتال داخل کیا گیا۔ پولیس کی جانب سے دانستانہ بنیادوں پر بولان میڈیکل کالج میں دھاوا بولنا اور صرف بلوچ طالبعلموں کو زدوکوب کرنے سمیت شدید تشدد کا نشانہ بنانا یہ سارے ایک سازش کے تحت کیا جانے والا عمل لگتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت ہمارے کئی طالبعلم پولیس نے غیرقانونی طور پر گرفتار کیے ہیں اور مختلف تھانوں میں بند ہیں۔ کچھ ساتھیوں کے ساتھ رابطہ بھی منقطع ہے۔ ہم کوئٹہ پولیس اور کالج انتظامیہ کو واضح کرتے ہیں کہ پرتشدادنہ کاروائیوں سے ہم کسی بھی صورت بولان میڈیکل کالج میں تعلیمی ماحول کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جلد سے جلد ہمارے گرفتار ساتھیوں کو رہاکرکے فوراً ہاسٹلوں کو پولیس سے خالی کیا جائے۔ ہم پولیس و انتظامیہ کو کل صبح کا الٹی میٹم دیتے ہیں کہ تمام گرفتار طالبعلموں کو رہا کرے بصورت دیگر تنظیم آج اپنے سخت آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کرے گی جس کا آج بزریعہ پریس کانفرینس اعلان کیا جائے گا۔