آواران: جبری لاپتہ دلجان بلوچ کی بازیابی کے لیے احتجاج

80

جبری لاپتہ شخص دلجان بلوچ کی بہن نے آواران کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر غیر معینہ مدت کے لیے بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے، جس کا مقصد ان کی بازیابی کا مطالبہ کرنا ہے۔

دلجان بلوچ کو 12 جون 2024 کو مبینہ طور پر پاکستانی فورسز نے ان کے گھر سے حراست میں لیا تھا، اور تب سے ان کا کوئی پتہ نہیں چل سکا۔

ان کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہرے 18 نومبر کو شروع ہوئے، جبکہ خاندان کے افراد اور مقامی رہائشیوں نے آواران کی مرکزی سڑکوں کو احتجاجاً بند کر دیا تھا۔ تاہم، حکام کی یقین دہانی کے بعد سڑکیں کھول دی گئیں، لیکن ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر دھرنا تاحال جاری ہے۔

دلجان بلوچ کی بہن نے احتجاجی کیمپ میں پریس کانفرنس کے دوران بھوک ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے حکام اور مقامی رہنماؤں پر وعدے توڑنے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا، “ہم نے کافی انتظار کیا۔ یہ بھوک ہڑتال ہماری آخری امید ہے۔”

مظاہرین دلجان بلوچ کی فوری رہائی اور احتجاج کے دوران مظاہرین کے خلاف درج مقدمات ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اہل خانہ کا کہنا ہے، “اگر اس احتجاج کے دوران ہمیں کوئی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ پر ہوگی۔”

دوسری جانب، حقوق کی تنظیم بلوچ وائس فار جسٹس نے دلجان بلوچ کے جبری گمشدگی کو اجاگر کرنے اور ان کے خاندان سے اظہار یکجہتی کے لیے سوشل میڈیا مہم کا اعلان کیا ہے۔ یہ مہم اتوار، 1 دسمبر کو رات 8 بجے سے آدھی رات تک ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر چلائی جائے گی۔

بی وی جے نے اپنے بیان میں کہا، “یہ مظلوموں کی آواز کو بلند کرنے اور دلجان بلوچ اور ان کے خاندان کے لیے انصاف کے مطالبے کو مضبوط کرنے کی کوشش ہے۔”

بی وی جے نے احتجاج کے دوران اہل خانہ کو مبینہ ہراسانی کا نشانہ بنانے کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا، “یہ مہم جبری گمشدگیوں کے متاثرین کی حالت زار سے متعلق عوامی شعور کو اجاگر کرنے اور مظلوموں کے ساتھ یکجہتی کے لیے ہیں۔