15 سال قبل لاپتہ ہونے والا میرا بیٹا تاحال بازیاب نہ ہوسکا۔ والدہ ذاکر مجید

36

جبری لاپتہ ذاکر مجید بلوچ کی والدہ نے کہا ہے کہ میرے بیٹے ذاکر مجید بلوچ کو 15 سال قبل 8 جون 2009 کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ تاحال لاپتہ ہیں اور اس تاریخ کے بعد میں نے کبھی انہیں نہیں دیکھا۔ ایک ماں کی خواہش ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو دیکھے اور اسے اپنی گود میں لے، لیکن ہر گزرتا دن میرے دل کو مزید توڑ دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ذاکر مجید طالب علم لیڈر تھے، انہیں اس طرح جبری گمشدگی کا نشانہ بنا کر بے نام و نشان کرنا اور ٹارچر سیلوں میں قید کرنا انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہے۔ میرے دل میں ایک خالی پن ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا، جیسے میری زندگی کا ایک حصہ مجھ سے چھین لیا گیا ہو۔

ذاکر کی والدہ نے مزید کہا کہ میرے بیٹے کی جبری گمشدگی کے دکھ نے مجھے مختلف بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ میں دل کی بیماری میں مبتلا ہوں، لیکن پھر بھی انصاف کی حصول کے لیے ہر دروازے کو کھٹکھٹا رہی ہوں۔ میرے جسم کی کمزوری، میرے دل کے درد کے سامنے کچھ بھی نہیں، میں صرف اپنے ذاکر کی واپسی کی دعا کرتی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میں عدالتوں، کمیشن کے علاوہ اسلام آباد، کراچی اور کوئٹہ میں احتجاجی دھرنوں اور ریلیوں میں شریک رہی ہوں۔ بیماری اور ضیعف العمری کے باوجود میں ہر ریلی اور احتجاج میں اس امید کے ساتھ شریک ہوتی ہوں کہ شاید ظالموں کے دل میں رحم پیدا ہو اور وہ میرے ذاکر کو میرے حوالے کر دیں۔ لیکن یہ امید بھی میرے دل میں چبھتی ہوئی ایک کانٹا بن چکی ہے، جو ہر لمحہ میرے درد کو بڑھاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ذاکر کی بازیابی کے لیے اس کی بہن فرزانہ مجید نے بھی ریلیوں اور احتجاجوں کی قیادت کی ہے اور کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد طویل ترین لانگ مارچ کا حصہ بھی رہی ہے، لیکن اس کے باوجود مجھے اور فرزانہ کو تاحال انصاف نہیں ملا ہے۔ ہم اپنی جدوجہد آخری سانس تک جاری رکھیں گے، لیکن میری آنکھوں کے سامنے میرے بیٹے کی خالی کرسی ہر دن مجھے یاد دلاتی ہے کہ ہم کتنے بے بس ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خضدار میں میرے گھر پر حملہ کیا گیا، گھر میں لوٹ مار اور تھوڑ پھوڑ کی گئی اور بچا کچا سامان جلایا گیا۔ اس طرح کی ظلم کرکے ہمیں اذیت دی جارہی ہے کہ ہم ذاکر کی بازیابی کے لیے آواز نہیں اٹھائیں، لیکن ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ میرے دل میں ایک ماں کی آرزو ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی گود میں سر رکھے، مگر میری آنکھیں صرف آنسوؤں سے بھری ہیں۔

انہوں نے بلوچ قوم کے تمام مکتبہ فکر اور تمام محکوم قوموں سے اپیل کی ہے کہ 13 اکتوبر کو جبری گمشدگیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم میں ہمارے ساتھ دیں اور میرے بیٹے ذاکر جان سمیت ٹارچر سیلوں میں قید تمام جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے آواز اٹھائیں۔ یہ ایک ماں کا درد ہے، جو پچھلے 15 سال سے اپنے بیٹے کی راہ دیکھ رہی ہے، امید کے ساتھ کہ ایک دن اس کا بیٹا واپس آئے گا اور اس کے گلے لگے گا، مگر ہر گزرتے لمحے کے ساتھ وہ امید بھی اس کے دل سے دور ہوتی جا رہی ہے۔