یو ایس اے ویزہ ،بین الاقوامی میگزین کی دعوت نامہ کے باوجود ،ایئرپورٹ پر مجھے پانچ گھنٹے روک ہراساں کیا گیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

179

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے منگل کے روز کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ آج میں اس ریاست میں بلوچوں کے تمام بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی داستان بیان کرنے آئی ہوں۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں، کل رات کراچی ایئرپورٹ اور اس کے باہر ریاستی خفیہ اداروں، ایف آئی اے اور سندھ پولیس نے بحیثیت شہری میرے تمام بنیادی انسانی حقوق کو سلب کیا اور ہمارے ساتھ ناقابل بیان سلوک کیا گیا۔ ایک بین الاقوامی مشہور میگزین “ٹائم” نے مجھے اس سال دنیا کے 100 بااثر افراد کی فہرست میں شامل کیا، اور مجھے نیویارک میں ٹائم ایونٹ میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ اس ایونٹ میں شرکت کے لیے کل رات میری پرواز کراچی سے نیویارک کے لیے تھی۔ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی پر تمام پروسیجر مکمل کرنے کے بعد امیگریشن ڈیپارٹمنٹ نے مجھے سفر سے روک دیا۔ جب میں نے وجوہات دریافت کرنے کی کوشش کی، تو ایف آئی اے کا ذمہ دار وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔
بغیر کسی قانونی وجوہات کے مجھے پانچ گھنٹے ایئرپورٹ پر روکے رکھا گیا۔ جب پرواز ٹیک آف کر گئی اور ہم وہاں سے نکل رہے تھے، تو ایف آئی اے کی ایک خاتون آفیسر نے میرا پاسپورٹ لیا اور واپس دینے سے انکار کردیا۔ ایک گھنٹے سے زائد وقت تک میں ان سے بات کرتی رہی، تب جاکر ایک گھنٹے بعد میرا پاسپورٹ مجھے واپس دیا گیا۔ جب ہم ایئرپورٹ سے گھر کے لیے روانہ ہوئے، تو ایئرپورٹ سے پانچ منٹ کی ڈرائیو پر دوبارہ ریاستی خفیہ اداروں اور سندھ پولیس کے اہلکاروں نے ہماری گاڑی روکی، جس میں میں، سمی دین اور ہماری ایک اور خاتون دوست موجود تھیں۔

انہوں نے کہاکہ گاڑی کو روکتے ہی انہوں نے ہمارے ڈرائیور کو گاڑی سے نکالا اور اس پر تشدد کرنا شروع کردیا، گاڑی کی چابیاں نکال کر گاڑی بلاک کیا گیا۔

ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہاکہ گاڑی کے چاروں دروازے کھول کر ہماری سیٹس کے نیچے تلاشی لی گئی مکمل طور پر گاڑی کی چھان بین کیا جب ہم نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی تو ہمیں گاڑی سے باہر نکال دیا گیا، ہمارے دوپٹے کھینچے گئے، ہمیں گالیاں دی گئیں اور شدید ہراساں کیا گیا۔ اس کے بعد ہمارے بیگ زبردستی کھینچ کر بیگ سے انہوں نے میرا پاسپورٹ، موبائل فون اور گاڑی کی چابی اپنے قبضے میں لے لی۔ ہم رات کے ایک بجے ایک سنسان شاہراہ پر کھڑے تھے جب دو ویگو گاڑیاں آئیں، ان میں موجود افراد نے ہمیں مزید ہراساں کیا اور ننگی گالیاں دے کر چلے گئے۔ ہم نے خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے اپنی گاڑی وہیں چھوڑ کر ایک ٹیکسی لی اور گھر پہنچ گئے۔ یہ ایک اذیت ناک اور تکلیف دہ لمحہ تھا کہ اس ملک میں ہمیں محض انسانی حقوق کا کارکن اور بلوچ ہونے کی بنا پر جانوروں سے بھی بدتر سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہاکہ کل جس طرح مجھے سفر سے روکا گیا اور ہمارے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا، اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ریاست پاکستان نے ہم سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے اور یہاں ہمارے لیے کسی بھی قسم کے انسانی حقوق موجود نہیں ہیں۔ آپ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میرے پاس یو ایس اے کا ویزہ اور ایک بین الاقوامی میگزین کی دعوت نامہ تھا، لیکن کراچی کے ایک بین الاقوامی ایئرپورٹ پر مجھے پانچ گھنٹے روکا گیا، سفر سے منع کیا گیا، ہراساں کیا گیا، اور میرا موبائل فون، پاسپورٹ اور گاڑی کی چابی بھی لے لی گئی۔ تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ بلوچستان میں یہ لوگ عام بلوچ کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرتے ہوں گے۔

انہوں نے کہاکہ میں اس پریس کانفرنس کے ذریعے ریاست اور اس کے تمام اداروں کو واضح پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ہم نہ تو خاموش ہوں گے اور نہ ہی بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز اٹھانا بند کریں گے۔ بلکہ اس طرح کے اقدامات سے ہمارا حوصلہ اور زیادہ بلند ہوگا، اور ہم مزید منظم ہوکر بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور بلوچ نسل کشی کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے۔
میں انسانی حقوق کی تمام ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ کل ہمارے ساتھ ہونے والے واقعے سمیت بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر ریاست پاکستان کو جوابدہ بنائیں اور بلوچ قوم کے بنیادی انسانی حقوق کو محفوظ بنانے میں کردار ادا کریں۔