یادِ رفتگاں: کامریڈ گلاب کیساتھ ایک یادگار نشست – ٹی بی پی انٹرویو

437

یادِ رفتگاں: کامریڈ گلاب کیساتھ ایک یادگار نشست

ٹی بی پی انٹرویو

زندگی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔ خود غرض لوگ زندگی کی حقیقی اقدار کے بارے میں بے حس ہوتے ہیں۔ سب سے خوبصورت لوگ وہ ہوتے ہیں جنہوں نے مصائب کو سمجھا، حالات کا ادراک کیا، نقصان کوجانا، اور ان کی گہرائیوں سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا۔ وہ راستہ جدوجہد کا ہے، جدوجہد آپ کو بہت کچھ سکھاتی ہے، جدوجہد زندگی کی فطرت میں شامل ہے۔ بلندیوں کی طرف جانے کیلئے انسان کا عملی طور پر جدوجہد ہی طرز عمل رہا ہے۔ وہ لوگ عظیم ہیں جو اپنے نظریئے کی پیروی آخری سانس تک کرتے رہے ہیں۔

عظیم مقصد کیلئے جدوجہد کرنے والوں کی یادداشتیں تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ خاص طور پر ایسی یادداشتیں جو ان لوگوں پر مشتمل ہوں جنہوں نے اپنی ساری زندگی مستقل مزاجی سے ایک نظریے کے ساتھ جدوجہد میں گزار دی، یہ حقیقت ہے کہ انقلابی تحریکات میں ہر ایک کا اپنا کردار ہوتا ہے کوئی بھی شخص اہم نہیں بلکہ کارنامے اہم ہوتے ہیں ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق تحریک میں رنگ بھرتا ہے اور اپنے حصے کا کام انجام دیتا ہے۔ لیکن تاریخ کو حکمران،  سپہ سالاروں،  بڑے بڑے رہنماؤں اور سماجی و معاشرتی زعماء کی نظر سے دیکھنے کے بجائے عام آدمی کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

کامریڈ گلاب کی جدوجہد کی یادداشتیں تاریخ کا حصہ ہے۔ کامریڈ گلاب سے میری ملاقات 2007  میں کامریڈ فراز کے توسط سے فکری ساتھی کے طور پر ہوئی تھی۔ اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے کامریڈ گلاب سے عملی جدوجہد کا مشاہدہ کیا۔ کامریڈ گلاب بلوچ  8 اگست 1969 کو کراچی میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا نام محمد پسند نوری اور والدہ کا نام زینب تھا۔  آپ کا آبائی گاؤں چکلی کلانچ بلوچستان ہے۔ چکلی کلانچ کے زیادہ تر لوگ مال مویشی پال کر اور برسات کے موسم میں کھیتی باڑی کرکے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ آپ اعلی تعلیم یافتہ تھے، آپ نے ایم اے اکنامکس اور ایم اے پولیٹیکل سائنس کی ڈگریاں حاصل کررکھی تھیں۔ آپ کتابوں کے مطالعہ کے بے حد شوقین تھے۔

آپ نے بلوچ، بلوچستان اور بلوچ قومی تحریک و تاریخ پر متعدد مضامین لکھے۔ آپ کی “بلوچ قومی سوال” کے نام سے ایک کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔سنگت برھان زھی کے علاوہ دیگر قلمی ناموں سے بھی  آٓپ نے  تحریروں کے ذریعے بلوچ نوجوانوں میں شعور و آگاہی دینے کا فریضہ سر انجام دیا۔ شدید بیماری کی حالت میں آپ نے اپنی تمام تحریروں کو مکمل ترتیب دیکر شائع کرنے کی کوشش جاری رکھی تھی۔ لیکن زندگی نے آپ کا ساتھ نہیں دیا اور 15 اکتوبر 2023 کو آپ وفات پاگئے۔ یہ اِنٹرویو کامریڈ گلاب کی بیماری کے دوران لیا گیا تھا۔

کامریڈ گلاب سے ابھی بہت سے سوالوں کے جوابات باقی تھے اور وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ ابھی بہت سے پہلو پر کامریڈ کے تجزیات، تجربات پر بات کرنا باقی تھا، مگر کامریڈ کی طبیعت کی ناسازی اور رخصتی نے ہمیں ایک نامکمل انٹریو ہی فراہم کیا۔

کامریڈ گلاب شدید تکلیف میں، بیماری کی حالت میں بھی، شدید جسمانی کرب میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی نظریاتی طور پر انتہائی محکم،مستحکم، پُرامید، پُرجوش اور اپنے علمی ؤ عملی سفر کو جاری رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ کامریڈ گلاب سے گفتگو کا سلسلہ کافی طویل اور پُر مغز ہونا تھا، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

کامریڈ گلاب ہمیشہ بلوچ سیاست اور بلوچ قومی جنگ پر گہری نظر رکھتے تھے، انہوں نے اپنے ایک قلمی نام میرک بلوچ سے لکھی گئی بہت سے تحریروں میں، بلوچ قوم جنگ کی شکل کو بدل کر اسے ایک کنونشنل جنگ کی روپ میں دھارنے کی بات بھی کی ہے۔

کامریڈ گلاب یقیناً آج جہاں بھی ہوں، وہاں سے بلوچ قومی جدوجہد میں نئی جہتوں کو دیکھ کر مزید پُرامید ہونگے اور انکا وہ یقین مزید پختہ ہوچکا ہوگا کہ اب بلوچوں کو انکے قومی سوال کے حل سے کوئی بھی قوت روک نہیں سکتی۔

درج ذیل انٹرویو ایک مہربان دوست، رہنما، دانشور اور ساتھی سے کی گئی وہ گفتگو ہے جو بلوچ قوم تک پہنچنا بے حد ضروری ہیں۔

سوال: آپ کہاں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی ؟

جواب: میری پیدائش کراچی میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم بھی کراچی سے حاصل کی۔

سوال: آپ نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کہاں سے کیا؟

جواب: مجھے بچپن سے ہی مطالعے کا شوق تھا اور یہی شوق میری سیاسی جستجو کا سبب بنا، میری طبیعت میں حساسیت تھی کسی کی غربت یا کسی پر ظلم دیکھ کر میں بہت پریشان ہو جاتا تھا، لیکن شعور کی آگہی نہ ہونے کے سبب میں یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ معاشرے میں کیوں ہو رہا ہے۔

میرے سیاسی سفر کا آغاز ڈاکٹر ظفر بلوچ کے قربت سے ہوئی، آپ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سرگرم رہنماوں میں سے ایک تھے اور طلبہ تنظیم کی ذمہ دار عہدیداری کے فرائض بھی ڈاکٹر ظفر بلوچ ادا کر رہے تھے، ان سے میری ملاقات ڈاکٹر ظفر بلوچ کے چھوٹے بھائی مقبول کے ذریعے ہوئی۔ میں اور مقبول جو ابراہیم علی بھائی اسکول میں کلاس فیلو تھے اور ساتھ ہی میں مقبول اور دوسرے بچے شام کو ظفر بھائی جان سے ٹیوشن لیتے تھے، اور یہیں سے مجھ سمیت مقبول اور دیگر بچے “ساتھی بارا سنگت” میں شامل ہوئے “ساتھی بارا سنگت” کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے بچوں کی تنظیم تھی لیکن اس کا ہمیں ادراک بعد میں ہوا۔ میری پہلی شعوری شمولیت ڈی ایس ایف DSF میں ہوئی۔ جو کمیونسٹ پارٹی کی طلبا تنظیم تھی، اور اس تنظیم میں ہماری رہنمائی ڈاکٹر ظفر بلوچ کر رہے تھے۔ اس تنظیم میں ڈاکٹر ظفر کے چھوٹے بھائی مسعود بلوچ انتہائی سرگرم تھے۔ مسعود بلوچ کی توسط سے ہم مظاہروں، کانفرنسوں اور میٹنگز میں جاتے تھے۔

سوال: ڈی ایس ایف DSF یا کمیونسٹ پارٹی کی قومی سوال پر کیا موقف تھی؟

جواب: ایک بلوچ ہونے کی حیثیت سے میں نے اور مجھ سمیت میرے کچھ دوستوں نے محسوس کیا تھا کہ DSF ڈی ایس ایف یا کمیونسٹ پارٹی قومی سوال پر کوئی واضح پالیسی نہیں رکھتی، بلکہ قومی سوال کو طبقاتی سوال سے جوڑتے تھے، جب کہ میں اور میرے دوستوں نے تحریری دستاویزات DSF ڈی ایس ایف کراچی زون کے چیئرمین اظہر عباس کو دیے۔ اس کے بعد DSFڈی ایس ایف میں ایک بحث کا آغاز ہوا۔ مختلف سنئیر دوستوں نے ہم سے ملاقاتیں کی، لیکن ہمیں وہ قائل نہیں کر سکے، اس کے بعد کامریڈ افشاں صبوعی نے جو کہ ہمارے تنظیم کی رہنما تھی، ہمیں اپنے والد محترم اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنما پروفیسر جمال نقوی سے ملاقات کروائی۔

اس ملاقات میں پروفیسر صاحب نے ہمیں واضح طور پر کہا کہ: “دیکھو بیٹا ہم نے نیشنل عوامی پارٹی میں رہ کر بلوچ رہنماؤں کے ساتھ جدوجہد بھی کی اور ہمارے ساتھیوں نے بلوچستان میں سن انیس سو تہتر 1973 میں فوج کشی کے خلاف بھرپور مزاحمت بھی کی، جیلیں بھی کاٹیں، جلاوطن بھی ہوئے، ہم بلوچ قومی سوال کو بالکل تسلیم کرتے ہیں مگر جب تک مظلوم و محکوم طبقات اور قومیں مشترکہ جدوجہد نہیں کریں گے، وہ اپنی منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ اس کی واضح مثال بنگلہ دیش ہے۔ آزادی کے بعد بھی وہ اپنے حکمران طبقات کے شکنجے میں ہیں اور وہاں سوشلزم نہیں آئی، ہم عالمی انقلابی اور عالمی مزدور تحریک کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ لہذا الگ سے کوئی بھی قومیت حقیقی آزادی حاصل نہیں کر سکتی آپ لوگوں کا سوال بالکل صحیح ہے مگر ہم سب کو قومی سوال کو طبقاتی سوال کے ساتھ جوڑ کر حقیقی آزادی تک پہنچنا ہے الگ سے نہیں۔”

سوال: کیا آپ اور آپ کے ساتھی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے قومی سوال کی پالیسی سے متفق ہوئے؟

جواب: بالکل نہیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ بلوچستان ایک آزاد ملک تھا اس کی ایک آزاد حیثیت تھی اور بلوچستان کا سفارتخانہ کراچی میں تھا۔ 27 مارچ 1948 میں پاکستان نے جبری طور پر بلوچستان پر قبضہ کیا اس لیے بلوچستان کی حیثیت پاکستان کے دیگر صوبوں سے یکسر مختلف تھی اور پھر وہاں ایک قومی آزادی کی تحریک کا آغاز ہوا۔ جس میں بلوچ قوم کے تمام طبقات نے مل کر اپنی آزادی کی جنگ لڑی جس میں سردار اور نواب بھی شامل تھے لہذا بلوچ قومی سوال تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ اب اسے پاکستان کے ترقی پسندوں کی بدبختی سمجھیں یا منافقت جنہوں نے بلوچوں کےخوبصورت تحریک کا ساتھ نہیں دیا۔

سوال: پاکستان کمیونسٹ پارٹی اور اس کی طلباء تنظیم کے ٹوٹنے کے کیا اسباب تھے ؟

جواب: چونکہ ہم کمیونسٹ پارٹی کی ذیلی تنظیم DSF ڈی ایس ایف میں کام کر رہے تھے، کمیونسٹ پارٹی کے ٹوٹنے سے نہ صرف DSF ڈی ایس ایف بلکہ کمیونسٹ پارٹی کے دوسری ذیلی تنظیمیں جیسا کہ سندھ ہاری کمیٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین، انجمن جمہوری پسند خواتین اور دوسرے ذیلی ادارے بھی دو حصوں میں بٹ گئے۔ ہم DSF ڈی ایس ایف کے طلباء کچھ امداد چانڈیو گروپ میں چلے گئے اور باقی دوسرے گروپ علی حسن چانڈیو کے ساتھ چلے گئے۔ یہ عمل سویت یونین کے انہدام کے بعد پورے دنیا میں ترقی پسندوں کے لیے پولورائزیشن کا دور تھا۔ جس کی وجہ سے بہت سے سوشلسٹ ممالک بھی ٹوٹ گئے، جیسا کہ یوگوسلاویہ، چیکوسلواکیہ، یوگوسلاویہ کا مکمل خاتمہ ہو گیا جبکہ چیکو سلواکیہ دو ممالک میں تقسیم ہوا، دیوار برلن گرنے کے بعد مشرقی جرمنی مغربی جرمنی کا اتحاد ہوگیا، ایسی صورتحال میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان جیسی کمزور اور عوام میں جڑیں نہ رکھنے والی تنظیم کی کیا حیثیت رہ جاتی تھی لہذا پاکستان میں کمیونسٹ تحریک قصہ پارینہ بن گیا۔

سوال: سوویت یونین کا انہدام اور پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی اور اس کے طلبہ تنظیم کے خاتمے کے بعد آپ نے کس سیاسی جماعت سے اپنی وابستگی اختیار کی ؟

جواب: کمیونسٹ پارٹی اور DSF ڈی ایس ایف کے خاتمے کے ساتھ ہی بلوچوں کی قومی تحریک بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی BSO بی ایس او بھی دو حصوں میں تقسیم ہوئی لہذا اس وقت کی صورتحال ہم جیسے سیاسی کارکنوں کے لیے انتہائی استراب کا زمانہ تھا مگر ہماری خواہش تھی کہ بلوچوں کی ایک سنگل ماس پارٹی ہو جو پھر سے بلوچ قومی تحریک کا نئے سرے سے جائزہ لے اور نئے سرے سے جدوجہد کا آغاز کرے مگر بلوچستان میں ایک موقع پرست گروہ ابھر کر سامنے آیا۔ جس کی وجہ سے بلوچ سیاست ٹکڑے ہو کر رہ گئی اور ان موقع پرستوں نے مراعات یافتہ پارلیمانی سیاست کو اپنایا اور بلوچ قوم بے یارو مددگار ہوگئی اس زمانے میں ہم نے کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں رکھا کیونکہ ہم انہیں حقیقی سیاسی جماعت نہیں سمجھتے تھے کیونکہ ان کے پاس نظریاتی ہم آہنگی نہیں تھی۔ میں نے اس دوران اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا اور ساتھ ہی چھوٹی موٹی ادبی تنظیمیں بنائی اور کام بھی کیا۔ مگر اطمینان کہیں بھی نہ تھا، ہمارے استاد ڈاکٹر ظفر بلوچ نے اس دوران نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور ہمیں بھی پیشکش کی لیکن ہم نے معذرت کرلی اور اسی دوران ظفر بھائی جان مزید تعلیم کے لیے امریکہ چلے گئے۔

سوال: سنہ دو ہزار 2000 میں بلوچ قومی تحریک کا آغاز ہوا آپ اور ڈاکٹر ظفر بلوچ اور آپ کے دوسرے ساتھی BNM بی این ایم میں شامل ہوئے، کیا یہ آپ لوگوں کا مشترکہ فیصلہ تھا؟

جواب: جی نہیں یہ مشترکہ فیصلہ نہیں تھا، چونکہ ڈاکٹر ظفر بلوچ امریکہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کینیڈا چلے گئے وہاں سے ان کا تعلق بلوچ جلاوطن رہنماؤں سے بنا۔ اور وہیں سے ڈاکٹر ظفر بلوچ اور دیگر ساتھی BNM بی این ایم میں شامل ہو گئے جبکہ میں نے اپنے ایک بزرگ BNM بی این ایم کے رہنما کامریڈ پاراز (فراز) بلوچ کے کہنے پر شہید قائد واجہ غلام محمد سے ملاقات کی، جہاں میں نے کامریڈ فراز کی موجودگی میں شہید قائد واجہ غلام محمد کے پرجوش دعوت پر BNM بی این ایم میں شمولیت اختیار کی۔ اور پھر دن بدن شہید قائد کے ساتھ میرے تعلقات بہت ہی گہرے ہوتے چلے گئے۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ یہ بلوچ قوم کی خوش بختی ہے کہ انہیں ایک باوقار بہادر اور انتہائی مخلص اور سچا رہنما مل گیا تھا۔ شہید قائد پوری بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں ایک چمکتا ہوا ستارہ تھا۔ اس کی کرشماتی شخصیت کے سامنے کسی کی بھی حیثیت نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کے مکار جرنیلوں نے اسے راستے سے ہٹانے کی تدبیریں اختیار کی اور بالآخر وہ اپنے اس نا پاک عزائم میں کامیاب ہوگئے ہمارے عظیم قائد کو اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مرگاپ میں شہید کردیا گیا۔

سوال: آپ مختلف فرضی ناموں سے بلوچ قومی تحریک، بلوچ جنگ اور قومی سمتوں کے تعین پر تحریریں اور تجزیات لکھتے رہے ہیں، جہاں بنیادی سوال کو بہترین انداز میں اجاگر کیا گیا اور دانشورانہ انداز میں درست سمتوں کی جانب نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ کیا تجزیات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے؟

جواب: میں نے بذات خود اپنی ذات کو کبھی دانشور تصور نہیں کیا البتہ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے اپنی زندگی بھر کی جدوجہد سے جو کچھ سیکھا اور جو تجربہ حاصل کیا، انہی کی روشنی میں بلوچ قومی تحریک برائے آزادی کے لئے، بین الاقوامی اور خطے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، انکا مشاہدہ کرتے ہوئے، اپنے تجزیات اور مختلف حالات ؤ واقعات کو ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کرتا رہا ہوں، جہاں کبھی امکانات پر بات کی گئی، تو کبھی نشاندہی کرائی گئی کہ کیونکر بلوچوں کو اب مزید شدت سے دشمن پر کاری ضرب لگانے کی ضرورت ہے تو کبھی تحریک پر تنقیدی نگاہ رکھتے ہوئے بہترین سمتوں کے تعین پر زور دی گئی ہے۔ بحیثیت سیاسی کارکن یہ میرا پختہ یقین و ایمان ہے کہ ان تحریروں کا سلسلہ نہیں رکے گا۔

سوال: بلوچستان میں جاری بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے بلوچ دانشور اور ادیب اپنا قومی کردار ادا کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں؟

جواب: افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چند ایک دانشوران ؤ ادیب کو چھوڑ کر باقی تمام ادیب ؤ دانشور انتہائی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے منافقت کر رہے ہیں۔ بعض تو ایسے بھی ادیب ؤ دانشور پائے جاتے ہیں جو اپنی نجی محفلوں میں بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے نہ صرف زہر افشانی کرتے ہیں بلکہ اس کے خاتمے کی بھی باتیں کرتے سنائی دیتے ہیں اور پھر انکا دوغلا پن دیکھیے کہ بلوچ کلچر ڈے کے نام پر سرکاری سرپرستی میں یونیورسٹیوں اور کالجوں میں نام نہاد کلچر کا جشن مناتے ہیں۔ یہ وہ کلچر ڈے مناتے ہیں جس کا بلوچوں کے حقیقی کلچر سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ جبکہ اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ زبان، ادب اور کلچر منڈی اور اقتدار اعلی کے پیداوار ہوتے ہیں۔ ان ہی کے ذریعے زبان، ادب اور کلچر کو ترقی ملتی ہے، جبکہ بلوچ کے پاس نا منڈی ہے اور نا ہی اقتدار اعلیٰ پھر کیسی زبان کیسا ادب کونسا کلچر ؟

یہی وجہ ہے کہ ان نام نہاد ادیبوں اور دانشوروں کے کتابوں اور رسالوں کی بھرمار لگی ہے مگر مطالعہ کرنے والا کوئی نہیں۔ چونکہ بلوچ مملکت اغیار کے قبضے میں ہے اور قبضہ گیر بلوچ قوم کی نسل کشی کر رہی ہے، جس کی وجہ سے گزشتہ سات دہائیوں سے بلوچ من حیث القوم مسلسل حالت جنگ میں ہے۔ اگر آج جب بلوچ قوم کو نسل کشی کا سامنا ہے، بلوچ قومی شناخت، بلوچ قومی سرزمین کو خطرہ لاحق ہے تو ایسے میں اگر یہ دانشور خاموش رہیں یا انہوں نے مزید لاتعلقی دکھائی تو پھر انکی یہ کتابیں کسی لائبریری یا عجائب گھر میں دھول چاٹتی ملیں گی کیونکہ جب قوم مٹ جائے گی اور سرزمین نہیں رہے گی تو زبان، ادب اور کلچر کس کے کام آئیگی اور اس کی کیا اہمیت رہ جائیگی، مثلاً مایا تہذیب اکادی ؤ سمیری قوموں کی ہے جن کی زبان بولنے والے اس دنیا میں اب نہیں رہے۔

سوال: رواں بلوچ قومی تحریک جو لگ بھگ گزشتہ 21 سالوں سے عمل پذیر ہے اس میں آپ کونسے امکانات دیکھ رہے ہیں ؟

جواب: موجودہ جاری قومی تحریک درحقیقت ایک تاریخی تسلسل ہے، 27 مارچ 1948 انیس سو اڑتالیس کو جبری قبضہ کے بعد سے بلوچ قومی تحریک کا آغاز ہوا گو کہ ابتدائی تحریک قلات اور گرد نواح کا احاطہ کیے ہوئے تھا مگر بعد میں اس کے اثرات تمام بلوچ پرتوں تک پہل گئے، گو کہ چند سالوں بعد اس تحریک کا اختتام ہوا، لیکن وہ جدوجہد بلوچ قومی تحریک کا تسلسل بن گیا۔ انیس سو اٹھاون 1958 سے انیس سو ساٹھ 1960 کے درمیان بابو نوروز خان اور انکے سرمچاروں نے جدوجہد کی جو1960 انیس سو ساٹھ میں ان کی شہادت تک جاری رہی، پھر اسی تسلسل کو جنرل شیروف نے ایک مکمل تنظیمی شکل دے کر پراری تحریک کا آغاز کیا اور اس جنگ میں مری قبائل کے ہراول کردار کا سبب بنا۔ یہ جنگ 1962انیس سو باسٹھ سے1969 انیس سو انہتر کی فائر بندی تک جاری رہی، جو پاکستانی ریاست کا یہ اعتراف تھاکہ بلوچ قومی تحریک حقیقی طور پر وجود رکھتی ہے۔

یہ فائربندی پاکستانی ریاست اور بلوچ سرمچاروں کے درمیان باقاعدہ معاہدے کی شکل میں ہوئی جس کی وجہ سے بلوچ قیادت نے نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے1970 انیس سو ستر کے الیکشن میں حصہ لیا اور پورے بلوچستان میں کامیابی حاصل کی۔ مگر حسب روایت پاکستانی ریاست نے اپنے وعدے کی پاسداری نہیں کی اور 1973 میں قومی آزادی کی تحریک نے زور و شور سے جنگ کا آغاز کیا اور یہ جنگ گزشتہ تمام جنگوں سے زیادہ خون آ شام تھی، جو 1973سنہ انیس سو تہتر سے انیس سو ستتر 1977 تک جاری رہی۔ اس جنگ کے بعد صورتحال واضح ہوئی۔ بلوچ قومی تحریک جدید سائنسی انداز میں منظم ہوتی رہی اور اس سے بلوچ سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور یہیں سے آزادی پسندوں نے اپنی رائے پارلیمان پرستوں سے جدا کی آزادی پسندوں کے رہنما بابا بلوچ نواب خیر بخش مری اور پارلیمان پرستوں کا رہنما بابائے مذاکرات میر غوث بخش بزنجو بن گئے۔

میں سمجھتا ہوں کہ سنہ 1969 کی فائر بندی اور انیس سو ستر 1970کے انتخابات میں حصہ لینا ہمارے بزرگوں کی غلطی تھی۔ موجودہ رواں تحریک کافی وسیع ؤ واضح طور پر مکمل قومی آزادی کی تحریک ہے گزشتہ تحاریک کے نسبت موجودہ تحریک صرف قبائلی بنیادوں پر چلنے والی تحریک نہیں بلکہ پڑھے لکھے باشعور نوجوان قیادت کے ہاتھوں میں ہے۔

حالیہ تحریک کی ایک اور بڑی خوبی اور کامیابی یہ بھی ہے کہ رواں تحریک میں بلوچ خواتین کی واضح، شعوری ؤ عملی شمولیت موجود ہے اور یہ تحریک بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور تمام بلوچ پرت اس تحریک کا حصہ بن چکے ہیں مزید برآں رواں تحریک نے اپنے عملی، علمی، شعوری دانشوران ؤادیب کا انتخاب بھی خود ہی کیا ہے۔

علاوہ ازیں نام نہاد قوم پرستوں کا چہرہ بھی رواں تحریک نے بے نقاب کر دیا ہے جس میں بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی کی قیادت شامل ہے۔ بی این پی مینگل کی دوغلاپن اس تحریک نے واضح کر دی ہے کہ ایک طرف قوم پرستی کا دعویٰ کرتے ہیں تو وہیں دوسری طرف توسیع پسند چین کے ساتھ الفت کے رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں جس کی واضح مثال یہ ہے سردار عطااللہ مینگل کے وفات پر چینی کمیونسٹ پارٹی نے سرکاری سطح پر بی این پی مینگل سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی مینگل کی قیادت نے چینی میگا پروجیکٹ سی پیک وغیرہ میں بھرپور تعاون اور تحفظ فراہم کیا جس کا چین شکرگزار ہے، میں اس لئے موجودہ قومی تحریک سے انتہائی پُر امید ہوں کیونکہ بلوچ قوم قبائلی، علاقائی ؤ جنسی تفریق سے بالاتر ہوکر واضح شعور کے ساتھ قومی آزادی کی جدوجہد کا عملی طور پر حصہ بن چکے ہیں۔

سوال: 27 مارچ 1948 سے لے کر آج تک کی بلوچ قومی تحریک پر اگر نظر دوڑائیں تو آپ کے مشاہدات کے مطابق بلوچ رہنماؤں سے کون سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں؟

جواب: میں نے اپنی تحریر “بلوچ قومی سوال” میں کافی حد تک غلطیوں کی نشاندہی کی ہے لیکن چونکہ انسان ہر وقت غلطیاں کرتا رہتا ہے اور معاشرے میں بھی غلطیاں ہوتی ہیں مگر باشعور لوگ غلطیوں کو تسلیم کرکے اور سیکھ کر غلطیوں کا ازالہ کرتے ہیں۔ موجودہ جاری قومی تحریک نے ماضی کے مقابلے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ ہمارے اسلاف نے جو غلطیاں کیں موجودہ تحریک نے ان غلطیوں کا کافی حد تک ازالہ بھی کیا ہے اور بہت سے نقصانات اور صدمات کا سامنا کرنا بھی پڑا ہے جیسا کہ ماضی میں تحریک قبائل تک محدود رہی ماضی میں تحریک کو وسعت دینے میں ہمارے بزرگ ناکام ہوئے ماضی کی تحریک میں بہت سے قد آور رہنما شامل تھے مگر انہوں نے قومی آزادی کی تحریک کو بین الاقوامی طور پر روشناس نہیں کرایا اور نہ ہی سفارتکاری جیسے اہم پرت کی جانب سنجیدہ توجہ دی گئی اور نہ ہی مستحکم ادارے تشکیل دیے گئے۔ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بلوچ رہنماء شروع دن سے ہی اپنی تحریک کو بہت حد تک ترقی پسند سیکولر انداز میں چلاتے رہے جو کہ بہت خوش آہند بات تھی یہی وجہ ہے بلوچ قومی تحریک تنگ نظری اور بنیاد پرستی سے پاک رہی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا روشن خیال تحریکوں کی مدد اور حمایت کرتی ہے۔ مگر اس سب کے باوجود بھی ہمارے بزرگ اپنی تحریک کی خاطر کوئی فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہیں رہے اور بعض اوقات تذبذب کا شکار رہے ہیں کبھی قومی حق خود ارادیت کی بات کرتے تو کبھی خود مختاری کی تو کبھی مکمل آزادی کی جس کی وجہ سے تحریک کو کوئی سمت فراہم نہ کرسکے جسکی وجہ سے بلوچ قوم کو بے پناہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔

ہمارے بزرگوں کی بہت سی غلطیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انیس سو اکہتر 1971 میں پاکستانی ریاست جس قسم کے شدید بحران میں مبتلا تھی اور بلوچستان کی آزادی ہمارے دروازے پر دستک دے رہی تھی، مگر ہمارے ان رہنماؤں نے اس وقت انتہائی سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا انیس سو اکہتر 1971 کا بحران اتنا شدید تھا کہ ایران نے اپنے تین لاکھ کی فوج بلوچستان کی سرحد پر لگا دی ایران کو خدشہ تھا کہ پاکستان جس بحران میں مبتلا ہے اس سے پاکستانی ریاست کا مکمل خاتمہ ہوگا اور ایران اپنی فوجیں بلوچستان میں اتار کر اس کو اپنے تصرف میں لے گا اس موقع پر ہمارے بزرگ رہنما ایران سے رابطہ نہیں کر سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اپنی ترقی پسند سوچ کی وجہ سے شاہ ایران کو امریکی پٹھو کہتے تھے اسی لیے یہ ان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی۔ کامیاب سیاستدان ہمیشہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہیں اگر ہمارے بزرگ رہنما ایران سے رابطہ کرکے بلوچستان کی آزادی اور ایران کی سلامتی کا معاہدہ کرتے تو بنگلہ دیش کے ساتھ بلوچستان بھی آزاد ہوتا چونکہ ایران اس خطے میں امریکہ کا پولیس مین تھا وہ امریکا کو بلوچستان کی آزادی پر قائل کر سکتا تھا لیکن ہمارے بزرگ سویت یونین کی طرف دیکھ رہے تھے جب کہ سوویت یونین نے بلوچستان کی آزادی کی کبھی حمایت نہیں کی سوویت یونین عالمی انقلابی تحریک کا احیاء چاہتا تھا اور وہ پاکستان میں مزدور انقلاب کی حمایت کرتا تھا لیکن ہمارے بزرگ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ سویت یونین ہمیں آزادی دلائے گا جو کی تاریکی غلطی تھی۔

سوال: بحیثیت سیاسی کارکن، عالمی ؤ علاقائی حالات کا مشاہدہ کرتے ہوئے آپ کے مطابق موجود بلوچ قومی تحریک میں مزید کونسے عوامل پر کام کرنے، بہتری لانے یا شدت لانے کی ضرورت ہے؟

جواب: قومی تحریکوں میں ہمیشہ نکھار اور بہتری کی گنجائش موجود ہوتی ہے، ہمیں مزید شدت سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے عمل میں بہت تیزی اور شدت لانی چاہیے کیوں کہ رواں تحریک اب فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوچکی ہے لہذا بلوچ رہنماوں کو بےباک ہو کر دو ٹوک انداز میں پوری دنیا کے سامنے بلوچ قومی سوال کو سائنسی انداز میں مرتب کرکے پیش کرنا ہوگا۔ جس کے لیے انتہائی ضروری اقدام میں سے سب سے پہلے مستحکم اور فعال اداروں کا قیام، انٹرنیشنل سیکرٹریٹ کا قیام، اقوام متحدہ کو براہ راست درخواست دینے سمیت عالمی طاقتوں سے جیسا کہ یورپ ؤ امریکہ سے واضح طور پر رابطوں کا نہ رکھنے والے تسلسل کا قیام، پُر عمل کیڈرز ؤ لیڈران کے مختلف وفود تشکیل دیکر خاص طور پر جارحانہ انداز میں مہذب دنیا کے سامنے اس تاریخی حقیقت کو بیان کرنا کہ بلوچ نسل کشی کے ذمہ دار امریکہ اور برطانیہ ہیں۔ کیوں کہ جہاں برطانیہ نے اپنے تاریخی ذمہ داری سے دستبردار ہوکر پاکستانی ریاست کی جانب سے بلوچستان جبری الحاق ؤ قبضہ پر خاموشی اختیار کی تو وہیں امریکہ اور مغربی طاقتوں نے پاکستانی جرنیلوں اور فوج کی آبیاری کی اور انہیں کثیر تعداد میں اسلحہ اور مالی امداد دی، اس امداد سے پاکستانی جرنیلوں نے دولت کے انبار لگائے اور ان پیسوں سے ساری دنیا کا امن برباد اور تباہ کر دیا اور بلوچستان میں قہر نازل کی۔

اب پاکستان چین کے ساتھ مل کر بلوچستان میں جنگی جرائم کا ارتکاب کررہا ہے۔اب یہ امریکہ اور مغربی ممالک کا اخلاقی ؤ انسانی فرض بنتا ہے کہ وہ اس دہشت گرد ریاست پاکستان پر اقتصادی پابندی لگا کر بلوچستان کی مکمل آزادی کی حمایت کریں اور بلوچستان کی آزادی کے لئے اقوام متحدہ کی پیس کیپنگ فورسز کو بلوچستان میں تعینات کر کے پاکستانی فوج کو بلوچ سرزمین سے نکال باہر کریں اور آزاد بلوچستان کی توثیق کریں تاکہ اس پورے خطے میں امن ؤ استحکام کا قیام ممکن ہو۔

سوال: آپ کے مطابق پاکستان کے موجودہ بحران کا سبب کیا ہے ؟

جواب: پاکستان اپنے قیام سے لے کر اب تک بحران زدہ رہا ہے کیونکہ حقیقت میں پاکستان بننے کے بعد پاکستانی رہنماؤں کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل نہ تھا، نہ یہاں کوئی واضح نظام قائم ہو سکا اور نہ ہی کبھی استحکام آسکا۔ میں پاکستان کو ریاست کے حوالے سے نہیں دیکھتا۔ کیوں کہ ریاست کے اپنے لوازمات ہوتے ہیں پاکستان بنیادی طور پر فرسودہ جاگیردارانہ بنیادوں پر استوار ایک ایسا خطہ ہے جس پر مافیاز کا قبضہ ہے سب سے بڑا مافیا پاکستانی جرنلز، پھر ججز، سول بیورو کریسی، جرنلسٹ اور پاکستانی سیاسی جماعتیں ہیں۔ اس کو ملک سامراجی طاقتوں نے اپنے مفادات کے لئے چلایا ہے جو اس کی طفیلی فرنٹ لائن کی حیثیت تھی۔ جو سوویت یونین کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس کی اہمیت ختم ہو گئی پھر نائن الیون کے بعد اس کی ضرورت پڑی اور افغانستان میں امریکہ کے جانے کے بعد اس کی سر پرستی کا خاتمہ ہوگیا۔

امریکا کا اس خطے میں مفادات ختم ہوگئے اب پاکستان بے یارو مددگار ہے اب امریکہ کے مفادات فار ایسٹ میں ہیں جہاں وہ چین کی توسیع پسندی کو روکنا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ سر پرست کے جانے کے بعد پاکستانی حکمران بے یارومددگار ہیں اور پاکستان کا ریاستی بحران انتشار میں بدلتا جارہا ہے، اور اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو پاکستان بچ نہیں پائے گا اور پاکستانی حکمران جنہوں نے کولڈ وار کے زمانے سے جو دولت کمائی ان کے یہ سارے اثاثے مغربی ممالک اور امریکہ میں محفوظ ہے اور مزید انتشار کی شکل میں یہ پاکستانی عوام کو ان کے حال پر چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور جیسا کہ دنیا کے بہت سے خطوں میں ہو چکا ہے مجھے تو 1975 کا سائیگون نظر آ رہا ہے۔

یہ لمحات بلوچ قومی تحریک کیلئے انتہائی انمول ؤ قیمتی ہیں، بلوچ قومی آزادی کی تحریک سے وابستہ رہنماؤں کو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی جدوجہد میں انتہائی برق رفتاری دکھانے اور تمام محاذوں پر کل وقتی اور بھرپور محنت کر کے اپنے منزل کو مزید قریب تر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ لمحات بہت ہی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور درست موقع پر درست فیصلہ کرنا، سمتوں کو تعین کرنے اور لمحات سے فائدہ اٹھاکر حالات کو اپنے حق میں بدلنا ہی ایک بہترین رہنماء کی نشاندہی کرتا ہے۔