ہمارے بچے اس ملک میں کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں، کراچی سے جبری گمشدگیوں کیخلاف پریس کانفرنس

73

گذشتہ دنوں کراچی سے لاپتہ ہونے والے بلوچ طالب علموں کی جبری گمشدگی کے حوالے سے کراچی پریس کلب میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا گیا کہ آج ہم یہاں اپنے جبری گمشدہ پیاروں کے حوالے سے موجود ہیں، جنہیں کراچی سی ٹی ڈی فورس نے گزشتہ روز 16 اکتوبر کو غیر قانونی حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کر دیا ہے –

انہوں نے کہا کہ ہمارے پیارے بشمول جن نو بلوچ طالبعلموں کو جبری لاپتہ کیا گیا ان کے تفصیل اس طرح ہیں؛ 1. شعیب علی ولد بختیار، سکنہ پسنی، کراچی یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کا طالبعلم، 2. حنیف ولد بدل، سکنہ اورماڑہ، وفاقی اردو یونیورسٹی کا طالبعلم، 3. اشفاق ولد خالق داد، سکنہ گریشہ خضدار، دینی مدرسے کا طالبعلم ہے، 4. شہزاد ولد خالد، سکنہ گریشہ خضدار، دینی مدرسے کا طالبعلم ہے، 5. بیبگر امیر ولد امیر بکش، سکنہ وشبود ضلع پنجگور، کراچی یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کا طالبعلم ہے، 6. زبیر ولد کریم بکش، سکنہ مند ضلع کیچ، انٹرمیڈیٹ کا طالبعلم، 7. قمبر علی ولد مسکان، سکنہ گریشہ ضلع خضدار انٹرمیڈیٹ کا طالبعلم، 8. سعید اللہ ولد در محمد، سکنہ گڑانی، کراچی یونیورسٹی میں لاء کر رہا ہے، 9. محمد جاوید ولد لال بکش بھی کراچی یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ میں فائنل ایئر کا طالب علم ہے۔ ان میں سے آٹھ طالبعلموں کو عینی شاہدین کے سامنے شام ساڑھے پانچ سے چھ بجے کے درمیان سی ٹی ڈی پولیس کی بھاری نے جو دس بارہ گاڑیوں پہ مشتمل تھے، جن میں کچھ وردی اور اکثر سیول وردی میں تھے، ان تمام طلباء کو گلشن اقبال کے علاقے بشیر ویلیج سے ایک ہی اپارٹمنٹ کے مختلف کمروں سے اٹھا کر لاپتہ کیا گیا –

انہوں نے کہا کہ ہمارے بچے اس ملک میں کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں، نہتے اور بیگناہ طالبعلموں کو بلا جواز غیر قانونی حراست میں لیکر کراچی سی ٹی ڈی فورس نے لاپتہ کر دیا اور اگلے دن آکر انکے کمروں سے انکے لیپ ٹاپ اور دیگر سامان بھی اٹھا کر لے گئے، جب ہم پولیس میں ایف آئی آر درج کرنے گئے تو انہوں نے ہماری فریاد سننے سے انکار کر دیا اور صاف منع کر دیا کہ وہ اپنے اداروں کے نام پر ایف آئی آر نہیں کاٹیں گے، جس ملک میں قانون کے رکھوالے ہی غیر قانونی نہتے شہریوں کو حراست میں لیکر اس طرح غائب کرتے رہیں گے تو ہم کہاں انصاف مانگنے جائیں؟

انہوں نے کہا کہ کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟ اس ملک کے شہری ہونے کے ناطے ہمارے بنیادی حقوق نہیں ہیں، ہمیں یہ حق بھی حاصل نہیں کہ اپنے گمشدہ پیاروں کی خیریت کے بارے میں پوچھ سکیں، ہمیں اتنا بتا دیا جائے کہ انہیں کس جرم کی پاداش میں اس طرح گھسیٹ کر جبری طور لاپتہ کیا گیا، کیا ان کا جرم یہی ہے کہ وہ بلوچ ہیں؟

انہوں نے کہا کہ ہم آج یہاں یہ فریاد لیکر آئے ہیں کہ ہمیں سنا جائے، ہماری آواز کو ان مقتدر اداروں تک پہنچایا جائے جنہوں نے ہمارے پیاروں کو بلا وجہ غیر قانونی حراست میں لیکر گمشدہ کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس غیر انسانی عمل کے خلاف آواز اٹھائیں اور ہمارے پیاروں کی بازیابی کیلئے ہمارا ساتھ دیں –