کوئٹہ جبری گمشدگیوں کے خلاف بھوک ہڑتالی کیمپ جاری

51

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے قیادت میں بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری طویل احتجاجی کیمپ کو آج 5614 دن مکمل ہوگئے، سبی سے سیاسی سماجی کارکن جمال خان سیلاچی جمیل احمد خجک در محمد بلوچ نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

کیمپ آئے وفد سے اظہار خیال کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جنگ جدل کی فضا روز بروز گہری ہو رہی ہے، ریاستی بحیثیت انتظامی ڈھانچہ ڈوب رہے ہیں اس ناکامی نے بلوچستان پر قابض قوتوں کا صرف سکھ چین ہی نہیں ٹوٹا بلکہ اُنہیں مزید سفاک بنا دیا ہے جس کا وحشیانہ مظاہرہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ جنگی قوانین و اصولوں کو پامال کرتے ہوئے بلوچ نسل کشی فوجی کاروائیوں میں لائی جانے والی شدت کی صورت میں کیا جاری ہے-

انہوں نے کہا ان فوجی کاروائیوں میں عام بلوچ آبادیوں پر بہیمانہ بمباری گھروں کو نذر آتش کرنا خواتین بچوں بوڑھوں سیمت نہتے بلوچوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانا اور اُنہیں اُٹھا کر لاپتہ کرنا پھر اُن کی تشدد زدہ مسخ لاشوں کو لواحقین کے حوالے کرنے کی بجائے ویرا تو میں یں پھینکنا اور اپنے زرخرید کارندوں کے ذریعے بلوچ طلبا نو جوانوں سیاسی کارکنوں صحافیوں اور دانشوروں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی ٹارگٹ کلنگ کرنا اور جب بلوچ ان تمام حلقوں کو ان کا دیگر بلوچ نسل کشی اقدامات شامل ہیں ۔

ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا اصل چہرہ کردار کے آئینے میں دکھاتے ہیں تو پاکستان کے تمام نام نہاد جمہوری اور انسانی حقوق کے چمین چیخ اُٹھتے ہیں کہ بلوچ قومی تنگ نظری اور تعصب کا مظاہرہ کررہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف پاکستانی ریاست اور مقتدرہ قوتیں ہی بلکہ پاکستانی معاشرہ بھی بلوچ قوم کے بارئے میں تنگ نظر اور مقصبانہ فکر عمل رکھتا ہے ۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا بلوچ قوم اقوام متحدہ سمیت حق و انصاف اور را من کی داعی تمام بین ہے الاقوامی قوتوں سے این مطالبے پر حق بجانب ہے کہ وہ مکران اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں پاکستانی فورسز کی بلوچ نسل کش کارروائیوں اور جنگی جرائم کا فوری نوٹس لینے تک کے لیے اپنا بھر پور ہوئے اس کی روک تھام اور جنگ جرن کی اصل بنیاد بلوچ قومی تنازعہ کے حقیقی حال قومی تحرید تا ہو اور واضع کردار ادا کرئے ۔