کوئٹہ: بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ جاری

57

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت میں کوئٹہ میں بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5602 دن مکمل ہوگئے، دالبندین سے سیاسی سماجی کارکنان غلام دستگیر بلوچ، لونگ خان بلوچ اور دیدگ بلوچ نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی-

کیمپ آئے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ لاپتہ بلوچوں کے لواحقین نے پاکستانی سیاسی مذہبی جماعتوں اور اُن کے پارلیمانی نمائندوں کو بھی بارہا متوجہ کیا مگر یہاں بھی ریاستی نو آبادیاتی جابرانہ فکر و عمل سے وابستگی اور لاپتہ کئے جانے والے بلوچوں اور اُن کے لواحقین کی طرف عدم توجہی بڑی نمایاں نظر آئی۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا یہی صورت حال پاکستانی میڈیا کی بھی ہے خود کو آزاد اور اعلیٰ جمہوری اخلاقی اور انسانی اقدار کا پاسدار قرار دینے والے میڈیا کے ایک غالب حصے کا کردار اس کے اپنے دعوؤں کی تھی اور بلوچ قوم سے تعبانہ امتیازی سلوک کی بڑی واضح عکاسی کر رہا ہے-

انہوں نے کہا عام پولیس جرائم تشدد اور ریاستی اداروں سماج میں بدعنوانیوں کو سطی طور اُچھالنے والا میڈیا بلوچستان میں ریاستی عسکری اداروں کے ہاتھوں بلوچوں کی جبری اغوا نما گرفتاریوں تشدد مسخ شدہ لاشوں اور انسانی حقوق کی دیگر پامالیوں کو مجرمانہ حد تک نظر انداز کر رہی ہے۔

ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا ریاستی خفیہ اداروں کے ہاتھوں بلوچوں کے اغواء، گمشدگیوں، تشدد اور قتل غارت گری پر خاموشی جبکہ بلوچ تحریک کو دہشتگردی اور پراکسی وار قرار دینے کا بے ہنگم اور بے دلیل پروپیگنڈ بار بار اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ پاکستانی میڈیا بھی بالادست قوتوں کا ہی نمائندہ ہے حالانکہ دنیا بھر کے حق و انصاف اور امن جمہوریت کے داعی حلقے بلوچستان میں ہزاروں بلوچوں کے ریاستی جیری اغوا سفا کا نہ تشدد مسخ لاشوں کی برآمدگی سمیت انسانی حقوق پامالی کی مذمت اور اُسے اُجاگر کر رہے ہیں۔