کراچی و دیگر شہروں سے کثیر تعداد میں بلوچ طالبعلموں کی جبری گمشدگی انتہائی تشویشناک ہے۔ بساک

25

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں مختلف شہروں سے بلوچ طالبعلموں کی جبری گمشدگی میں اضافہ انتہائی تشویشناک ہے۔ رواں ہفتے بلوچستان بھر سے درجنوں نوجوانوں کو جبراَگمشدہ کرکے لاپتہ کیا گیا ہے جن میں اٹھارہ کیس رجسٹر ہوئے ہیں۔ اسی طرح 16 اکتوبر کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی کے علاقے گُلشن اقبال بشیر ولیج میں طلبہ ہاسٹلوں پر چھاپے مارتے ہوئے وہاں سے آٹھ طالبعلموں کے جبراَ گمشدہ کیا گیا اور ان کےسامان و دوسر ے چیزیں بھی اپنے ساتھ لے گئے جبکہ دوسری جانب وندر سے ایک اور خضدار کے علاقے کوڈاسک سے ایک طالبعلم کو جبری گمشدگی کا شکار کیا گیا۔ اسی طرح اسی ہفتے تربت سے دو نوجوانوں اور پنجگور سے دو نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا جبکہ پچھلے ہفتے بھی دو نوجوان پنجگور سے جبری گمشدی کے شکار ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لواحقین کی احتجاج و پرامن مظاہروں سمیت دوسرےانصاف کے درازے کٹکٹانے کے باوجود ان کو ابھی تک رہا نہیں کیا گیا۔ ایک طرف ماورائے عدالت بلوچ نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا شکار کیا جاتا ہے تو دوسری جانب نام نہاد انصاف کے ادارے ایف آئی آر کاٹنے سے بھی کتراتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ کراچی سمیت دیگر علاقوں سےجبری گمشدگی کے شکار ہونے والے طالبعلم جامعہ کراچی، فیڈرل اردو یونیورسٹی کراچی و اوتھل یونیورسٹی لسبیلہ کے طالبعلم تھے جبکہ ان میں کچھ انٹرمیڈیٹ کے طالبعلم بھی شامل ہیں۔ بلوچ طالبعلموں کو قومیت کے نام پر اس طرح ٹارگٹ کرکے جبری گمشدگی کا شکار کرنے کاعمل اجتماعی سزا کے زمرے میں آتی ہے جو انتہای تشویشناک ہے ۔ جبری گمشدگی کے واقعات میں اضافہ سے بلوچ طالبعلموں کے اندر انسیکورٹی کا ایک ماحول پیدا ہوئی ہے جس میں تمام بلوچ طالبعلم زہنی کوفیت کے شکار ہیں کہ ان کو بھی کہیں نہ کہیں اجتماعی سزا کے پاداش میں جبری گمشدگی کا شکار کیا جائے گا۔

ترجمان نے کہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ و حکومتی ادارے ملک میں لاقونونیت کا روایت اپنا کر بلوچ طالبعلوں کومتعصبانہ انداز میں نشانہ بنا رہے ہیں جس میں بلوچ معاشرے میں خوف و حراس کا ماحول پیدا ہوا ہے جہاں نوجوان سمیت تمام بلوچ خاندان زہنی مریض بنے ہوہے ہیں ۔

مزید کہا ہے کہ کسی شہری کو جبری گمشدگی کا شکار کرنا ناصرف غیر قانونی عمل ہے بلکہ ایک سنگین جرم ہے، مگر ریاستی ادارے اپنے ملکی قوانین کو روندتے ہوئےکئی دہائیوں سے بلوچ قوم کو اس کا شکار بناتے آرہے ہیں جس میں زیادہ تر بلوچ طالبعلم اس کے شکار ہورہے ہیں۔ بلوچ طالبعلموں کو جبری گمشدگی کا شکار بناکر معاشرے میں انسیکورٹی کا فضا پیدا ہونا ساری بلوچ نوجوان نسل کو تباہ و ازیت دینے کے مترادف ہے۔ اسٹبلشمنٹ اس طرح کے رویوں کو ترک کرکے بلوچ نوجوانوں کو پڑھنے او ر جینے کا حق دے اور ہم تمام جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے طالبعلموں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔