کتاب : بالاچ مری بلوچ
مرتب : ستار سیلانی
چمشانک : شاری بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اس کتاب کا مصنف ستار سیلانی بلوچ ہیں، ستار سیلانی بلوچ مچھ کے رہائشی اور بالاچ مری کے ایک قریبی دوست تھے- ستار سیلانی نے بالاچ مری پر مختلف آرٹیکلز کا مجموعہ بنا کر اس کو کتابی شکل دی۔
بالاچ مری اپنے ابائی علاقہ کاہان میں 17 جنوری 1966 کو مری قبیلے کے سردار خیر بخش میر کے گھر میں پیدا ہوئے، نوابزادہ میر بالاچ خان سردار خیر بخش مری کے بیٹوں میں تیسرے نمبر پہ تھے۔انہوں نے اپنا ابتدائی تعلیم گرائمر اسکول شالکوٹ(شال) سے حاصل کیااور اس کے بعد روس کے دارالحکومت ماسکو چلے گئے اور وہاں سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ 1973 میں بھٹو کے دور حکومت میں بلوچستان میں فوجی آپریشن کئے تو مری قبیلہ سمیت بلوچوں نے افغانستان ہجرت کی تو ان لوگوں کے ساتھ نوابزادہ بالاچ مری بھی شامل تھا۔
حالات ٹھیک ہونے کے بعد وہ بلوچستان آئے اس کے بعد وہ لندن چلے گئے کیونکہ 6 جنوری 2000 کو جب بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس نواز مری کے قتل کیس پر نواب خیر بخش مری اور اس کے پانچ بیٹوں کو مری قبیلے کے ساتھ نامزد کیا گیا تھا تو اس وقت بالاچ مری لندن چلے گئے۔ جب2002 کو انتخابات کیلئے نامزدگی ہوئی تو نوابزادہ بالاچ خان مری نے کوہلو حلقے پی بی 23 سے مخالف محبت مری سے 5 ہزار ووٹوں کی بنیاد پر شکست دی اور واپس اپنےوطن بلوچستان آگئے۔ جیت کے بعد جب بلوچستان اسمبلی میں انہوں نے حلف نامہ پڑھتے وقت بلوچی زُبان میں حلف لیا اور کہا کہ میں اپنے ملک کا وفاداری کے بجائے “میں اپنے سر زمین بلوچستان کا وفادار رہونگا “کا نعرہ بلند کیا۔
انہوں نے ایک بڑا کارنامہ یہ انجام دیا کہ مری قبیلے میں آپسی رنجشوں اور مری بگٹی قبائلی جنگ کا تصفیہ کیا۔بالاچ مری نے لڑکپن سے اپنے والد کو ساتھیوں کے ساتھ جلا وطنی اختیار کرکے بلوچ عوام کی غربت ، بدحالی اور تباہی کو نزدیکی سے دیکھا۔
بالاچ نے ماسکو ، سویت یونین اور لندن جیسے شہروں کا سفر کیا جہاں انہوں نے ترقی یافتہ ممالک کے حالات خوشحالی کا جائزہ لیا اور بلوچ مظلوم کے بارے میں غور کیا تو انہوں نے منصویبنائے اور نتیجے پر پہنچے کہ بلوچستان کو تحریک آزادی کی ضرورت ہے۔ شہید انقلاب بالاچ خان مری ایک سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے بلوچ و بلوچستان کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ بالاچ مری کا نام ان کے والد خیر بخش مری نے عظیم بلوچ مزاحمتی کردار تاریخ بلوچ ہیرو بالاچ گورگیج کے نام کی نسبت رکھا. بالاچ مری نے اپنے والد کی طرح بلوچ عوام کی صدیوں غلامی کی شدت محسوس کی اور مزاحمت کا راستہ اختیار کیا اور 175 سالہ غلامی زندگی کے حصول کے لیے جدوجہد کی . انہوں نے اپنی نوابی زندگی چھوڈ کر جلا وطنی اور وطن بلوچستان اور بلوچ قومی آزادی کے لیے پہاڑوں کا اختیار کیا-
بالاچ مری بابا وطن نواب اکبر خان بگٹی کے ساتھ پہاڑوں پر یکجاہ تھے جب بابا وطن نواب اکبر خان بگٹی27 اگست 2006 کو شہید ہوئے تو بالاچ مری اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ہم مانتے نہیں کہ نواب صاحب شہید ہو گئے ہیں کیونکہ ان کی نا لاش دکھائی گئی اور نہ ہی ان کے ساتھیوں کی پتہ بتایا گیا دشمن آخری حد تک اپنی کوشش کر رہی ہے کہ لاشیں پھینک کر تو کبھی لاپتہ کر لیکن بلوچی میں ایک کہاوت ہے کہ ” قوم پہ مرگ گار نہ بیت ءُ نہ پہ گِرگ ءُ گار کنگ گار بیت”۔دنیا کو تبدیل کرنے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو اپنا حال قوم کےمستقبل کے لیے قربان کرتے ہیں۔ بالاچ مری نے ثابت کر دیا تھا کہ ان کا اخری سانس بھی مادر وطن اور بلوچ قوم کی دفاع کے لیے قربان ہوگی۔ بالاچ کا مقصد بلوچ قوم کی آزادی تھا ۔ بلوچ قوم کے ماتھے سے اس داغِ غلامی کو مٹادیا جائے۔گل زمین لیے لڑنے والے بہادر بالاج مری کے پاؤں میں چھالے تک پڑ گئے بھوک اور پیاس ان کے ہمسفر رہے سخت سردی و گرمی کے باوجود پہاڑوں میں سفر کرتے رہے۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خاموشی اختیار کرنا غلامی قبول کرنے کے مترادف ہوگا ۔
میر بالاج مری نے بلوچ سماج میں سیاسی و قبائلی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جب تک بلوچ معاشرہ باہم متحد اور یکجا نہیں ہوگا تب تک بلوچ قومی جدوجہد حاصل کرنا ناممکن ہے۔اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد بالاچ مری نے براہمدغ بگٹی کے ہمراہ مل کر جدوجہد جاری رکھا۔21 نومبر 2007 وہ دردناک دن ہے جس دن میر بالاچ خان مری اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے ۔شہید بالاچ مری ایک دلیر مند اور بہادر اوصاف کے مالک تھے۔ بالاچ مری کو بلوچ قوم کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے بذات خود پہاڑوں میں رہ کر بلوچ جنگ ازادی کے قیادت کو سمجھنا تھا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اب بلوچ قوم آسانی سے کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتا اور کرنے کوتیار بھی نہیں تھا کیونکہ ریاست اور اس کے زرخرید سرداروں نوابوں نے بلوچ قوم کو دو مرتبہ قرآن کے نام پر دھوکہ دیا تھا۔بالاچ مری کی شہید ہونے پر سردار خیربخش مری فخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرا بیٹا بالاچ اگر عمارت کا چھت ہے تو اس کی دیواریں وہ ہزاروں سرمچار بلوچ ہیں اس لئے کسی کی قربانی بالاچ سے کم نہیں۔ بالاچ خود کہتا تھا کہ جس راہ پر میں اور میرے ساتھی چل رہے ہیں اس راہ پر واپس نہیں آسکتا ہے ۔ یہ راہ یک طرفہ ٹکٹ ہے۔گوریلا لیڈر میر بالاچ خان مری کی دوسری برسی پر انجمن مری اتحاد جلسے عام کا انعقاد کرتے ہیں جس میں حیربیار مری جلسے کے اختتام پر باہر دیکھتا ہے تو اسے چلتن اور کوہ مردان کے پہاڑوں میں مسکراتا پھولوں میں بالاچ مری نظر اتے ہیں جو دشمنوں کو کہہ رہا ہے کہ مکران سے لے کر چلتن کے دامن میں بلوچوں کی شعوری نظریات کو غور کرو تو یہ جانوں گے کہ کتنے بالاچ پیدا ہو چکے ہیں۔ حیربیار مری کہتے ہیں کہ بلوچ قوم اپنے سرزمین اپنے وسائل اور سیاسی و اقتصادی طور پر اپنے اپ کو مالک بنانا چاہتا ہے اور مزید کہتے ہے کہ آزادی کی تحریک کو اب کوئی نہیں روک سکتا ۔
ہماری جنگ بلوچستان کی آزادی تک جاری رہے گی ۔ شہید نواب اکبر اور سنگت بالاچ مری کی شہادت نے ہم سب کے لیے ایک واضح پیغام چھوٹا ہے کہ ذاتی اور انفرادی فکر چھوڑ دیں ۔اپنے قوم کے لئے کسی بھی قسم کے قربانی کے لیے تیار ہو تاکہ ہمیں جلد از جلد آزادی حاصل ہوسکیں اور وہ ازادی جوکہ تمام انسانوں کا کا فطری حق ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں۔