چین کے گوادر میں اسٹرٹیجک مقاصد ، معاشی مفادات سے بڑھ کر ہیں۔ ڈاکٹر نسیم بلوچ

451

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 57ویں اجلاس کے دوران ایک ضمنی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تنقید کی۔

تموکو ڈویلپمنٹ کلچرل یونین ( ای سی ایس او سی ) کے زیر اہتمام اور یونین کے پرنسپل نمائندے اور پی ٹی ایم یورپ کمیٹی برائے بین الاقوامی سفارتکاری اور امورخارجہ کے سربراہ فضل الرحمان آفریدی کی زیر صدارت اس تقریب کا انعقاد کیا گیا۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے پاکستان کے ساتھ چین کی شراکت داری سے لاحق خطرات پر بات کی۔

انھوں نے آبنائے ہرمز کے قریب واقع گوادر کی تزویراتی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، چین نہ صرف اقتصادی غلبہ چاہتا ہے بلکہ ایک اہم سمندری راستے پر بھی کنٹرول چاہتا ہے۔ گوادر کے گرد باڑ لگانے کا مقصد صرف بلوچ عوام کو کنٹرول کرنا نہیں بلکہ یہ عالمی طاقتوں کے لیے ایک اہم خطے پر چین کے اثر و رسوخ حاصل کرنے کے عزائم کی عکاس ہے۔

انھوں نے بلوچستان میں چین کی مداخلت کے نتیجے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا سی پیک، جسے اکثر ترقیاتی اقدام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، نے خطے کے قیمتی وسائل بشمول گیس، سونا اور تانبے کے استحصال کو بڑھایا ہے، جبکہ گوادر بندرگاہ جیسے منصوبوں کے لیے کئی دیہات مکمل طور پر بے گھر کردیئے گئے ہیں۔ سی پیک بلوچوں کے لیے خوشحالی کی وعید نہیں بلکہ یہ پسماندگی اور بے دخلی کی ایک اور شکل ہے۔

بلوچوں کے لیے گہری ثقافتی اہمیت کے حامل شہر گوادر کو فوجی علاقے میں تبدیل کرنا بھی چیئرمین بی این ایم کی تقریر کا اہم حصہ تھا ، انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقامی باشندے اب فوجی منظوری کے بغیر اپنے شہر میں داخل نہیں ہوسکتے، کیونکہ یہ علاقہ چین کے وسیع تر جغرافیائی سیاسی عزائم کے تحت ایک فوجی زون میں تبدیل ہو چکا ہے۔

انھوں نے اپنی جبری گمشدگی کا حوالہ دیتے ہوئے ، ان دردناک تجربات کی طرف اشارہ کیا جو ایک جبری گمشدہ شخص اور اس کے اہل خانہ کو درپیش ہیں ، انھوں نے کہا بلوچ قوم کی آزادی کی خواہش کو دبانے اور لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے پاکستان کی جانب سے جبری گمشدگیوں کی منظم پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ جس میں ماورائے عدالت قتل اور تشدد بھی شامل ہے۔ بلوچستان کے جبری الحاق کے بعد سن 1948 سے بلوچ عوام ان مظالم کا شکار ہیں۔

پاکستان میں دیگر محکوم اقوام کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر انھوں نے کہا ہزاروں بلوچ، پشتون، سندھی اور کشمیریوں کو بغیر کسی مقدمے کے حراستی مراکز میں قید کیا گیا ۔ یہ مراکز ’’ ناانصافیوں کے بلیک ہول ‘‘ ہیں جہاں قیدیوں کو ہولناک تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان جبری گمشدہ قیدیوں میں سے بہت سے دوبارہ کبھی منظر عام پر نہیں آتے۔

اپنے اختتامی کلمات میں انھوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اپنی خاموشی توڑے۔ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں فوری بین الاقوامی توجہ کا مطالبہ کرتی ہیں۔ پاکستان کو اس کے اقدامات کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیے اور مسلسل خلاف ورزیوں پر پاکستان پر پابندیاں عائد کرنی چاہئیں۔

انھوں نے پزور الفاظ میں دہرایا کہ ’’ یہ ہماری بقا کی جنگ ہے ‘‘ عالمی برادری بلوچ عوام کے حق خود ارادیت اور آزادی کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دیں۔