چینی سفیر کا بیان حیران کن، دونوں ممالک کے سفارتی روایات کی عکاسی نہیں کرتا۔پاکستانی دفتر خارجہ

427

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا ہے کہ چین کے پاکستان میں سفیر کا بیان حیران کن ہے جو دونوں ممالک کے سفارتی روایات کی عکاسی نہیں کرتا۔

ہفتہ وار پریس بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا چینی شہریوں کے ساتھ چند بدقسمت واقعات رونما ہوئے، ہمیں چینی حکومت اور سفارت خانے کی تشویش سے آگاہی ہے، ہم نے چین کو ان واقعات کی تحقیقات کے بارے میں آگاہ کیا، پاکستان میں قیادت کی سطح پر یہاں چینی باشندوں، منصوبوں اور کمپنیوں کے تحفظ کے عزم کی تجدید کی گئی۔

ممتاز زہرا کا کہنا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کانفرنس کے دوران وزیراعظم نے چینی ہم منصبو کو بھی چینی شہریوں کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی، چینی سفیر کا یہ بیان حیران کن ہے ، ان کابیان پاک چین سفارتی روایات کی عکاسی نہیں کرتا۔

واضح رہےکہ گزشتہ روز چینی سفیر نے پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ (پی سی آئی) کے زیر اہتمام ’’چائنا ایٹ 75 اے جرنی آف پروگریس، ٹرانسفارمیشن اینڈ لیڈرشپ‘‘ کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اسحاق ڈار کے سیکیورٹی سے متعلق ریمارکس کے بعد جواب دینے کا اپنا حق استعمال کیا۔

چینی ایلچی کی طرف سے تشویش کا یہ عوامی مظاہرہ سفارتی حلقوں میں انتہائی غیر معمولی اور پاکستان میں چینی شہریوں کی سلامتی کے بارے میں دونوں ممالک کے نقطہ نظر میں واضح فرق کو اجاگر کرتا ہے۔

چین کہتا ہے کہ یہ ناقابل قبول ہے کہ ہم پر چھ ماہ کے اندر دو بار حملہ کیا جائے، جس سے ہمارے شہریوں کا جانی نقصان ہو،” جیانگ نے پاکستان سے براہ راست “مجرموں کو سخت سزا دینے اور تمام چین مخالف دہشت گرد گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے” پر زور دیا۔ سفیر کے واضح تبصرے بیجنگ میں بار بار سیکیورٹی کی خامیوں پر بڑھتی ہوئی مایوسی کی عکاسی کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ “سیکیورٹی چین کے لیے سب سے بڑی تشویش ہے اور پاکستان میں سی پیک کی رکاوٹ ہے۔

واضح رہے کہ سی پیک کو بلوچ سیاسی و عسکری حلقوں کی جانب سے استحصالی منصوبہ قرار دیا جاچکا ہے جس کے ردعمل میں سیاسی حلقوں کی جانب سے اندرون و بیرون ملک مختلف فورمز پر احتجاج کرنا اور بلوچ مسلح آزادی پسند جماعتوں کی جانب سے سی پیک و دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

یاد رہے کہ گوادر پورٹ ، سی پیک، سیندک اور دیگر پراجیکٹس کے باعث بلوچستان میں چائنیز انجینئروں و دیگر اہلکاروں پر خودکش حملوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے۔

یاد رہے کہ بلوچ لبریشن آرمی دو ہزار اٹھارہ سے مسلسل چین کے معاشی اور عسکری مفادات کو نشانہ بنا رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ کراچی میں انتہائی حساس مقام پر سخت سیکورٹی حصار میں چین کے انجنئیرز پر بی ایل اے فدائین یونٹ مجید بریگیڈ اور انٹیلجنس ونگ زراب کے کامیاب حملے سے واضح ہوتا ہے کہ تنظیم پورے پاکستان میں کسی بھی مقام پر چین کے مفادات اور منصوبوں پر حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔