چند خیال ۔ دینار بلوچ

295

چند خیال 

تحریر : دینار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج پھر میرے زبان سے وہی الفاظ نکلے کہ کاش ہم کچھ دیر پہلے یہاں پہنچ چکے ہوتے …….. آج کامریڈ کچھ احتجاجًا کہہ دیا کہ ہر نٸی جگہ پہنچ کے آپ کے زبان سے یہی الفاظ سننے کو ملتے ہیں …میں بھی خاموشی کو عافیت سمجھ کر فطرت کی رنگینیوں میں کھو گیا ……. کہ یہ خوبصورت وادیاں ، یہ بلند و بالا سنگلاخ پہاڑ ان کی وجہ تخلیق کیا ہوسکتی؟ کیا سوچ کر خدا نے یہ پہاڑ تخلیق کیۓ ہونگے ۔ کٸی کلو میٹر پہ محیط ان کالے پہاڑوں کے درمیان سرخ اور فیروزی پتھر کا کیا کام . محض یہ خوبصورتی کیلۓ بناۓ گۓ ہوں تو پھر ان میں آوارہ گردی کرنے سے ثواب بھی تو ملتا ہوگا …..جو بھی ہے بلوچستان بہت خوبصورت ہیں ، جتنا بلوچ فرزند بلوچستان کی مستقبل کے لیۓ فکر مند رہتا ہے ویسے بلوچستان بلوچ کے لیۓ بھی فکرمند ہے ……کامریڈ کبھی سوچا ہے بلوچ کاروان اتنی غربت کے باوجود بڑھتا جاتا ہے ، توانا ہوتا جاتا یے …..کامریڈ کبھی سوچا ہے یہ سنگلاخ پہاڑ جتنے بلند اور سخت ہیں اتنے بلوچ کیلیۓ نرم دل رکھتے ہیں …..کامریڈ کبھی مفلسی کے عالم میں بےیار و مددگار خود کو ان کے حوالے کر کے تو دیکھو یہ تمہیں موسمی پھل اور پانی میسر کرکے تمہیں زندہ رکھیں گے ، کبھی بھی یہ سنگلاخ پہاڑ آپ کے ہاں بھوک اور پیاس کو بھٹکنے بھی نہیں دینگے . کبھی ان پہاڑوں کے محبت میں مبتلا تو ہوکے دیکھوں۔

پتہ ہے کامریڈ ان پہاڑوں کا بھی مزاج ہوتا ہوگا ان کی مزاج کو پرکھنے کیلیۓ حسین اسیر ، بابل اور عالم مسرور کے بجاۓ میر احمد اور منہاج مختار کی گیت انہیں سنا کر دیکھو تو سہی کیسے جھومتے ہیں ، کیسے ان کے چہرے کھل کھلا اُٹھتے ہیں ، کیسے اپنی بےزار پن کو ختم کر کے آپ سے بغل گیر ہوکے مسکرانے لگتے ہیں ۔

‏کاش! یہ پہاڑ، یوں خاموش نہیں ہوتا اور میں اس سے بات کرسکتا، تو میں اس سے پوچھتا کہ اس نے مرگ و زیست اور فنا و بقا کی کتنی جنگیں اپنے پہلو میں دیکھیں ہیں۔ اگر پہاڑ بولتے، تو دنیا کے سب سے بہترین قصہ گو یہی ہوتے۔(برزکوہی)

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ پہاڑ بھی ایک شعور یافتہ شخص کے لیۓ ایک درسگاہ ہوتے ہیں …… یہ بے زبان پہاڑ قصہ گو بھی ہوتے ہیں اور یہ وہ قصہ گو ہوتے ہیں جو کبھی جھوٹ نہیں بولتے بس آپ میں ان کی بات سننے اور سمجھنے کی صلاحیت ہونی چاہیۓ ۔ یہ ہمارے روایتی درسگاہوں کی طرح نہیں جن کا مقصد صرف اور صرف پیسہ بٹورنا ہوتا ہے جہاں سوال کرنے اور سوچنے کی عمل کو بدتمیزی سمجھا جاۓ جہاں استاد خود استاد ظاہر کرنے کے بجاۓ ایک پیشہ ور تعلیم یافتہ شخص ظاہرکرنے پہ فخر محسوس کرتا ہو ۔

طالب علمی کے دور میں ، میں جب بھی پاکستان اسٹڈیز کے استاد سے سوال کرتا کہ پاکستان کا مطلب لاالہ اللہ کیسے بنتا ہے ، اور یہ سوال کبھی پرچہ میں بھی نہیں آیا زرا یہ تو ہمیں سمجھا دے ….استاد مجھے الگ بٹھا کر اپنے دوسرے شاگردوں کو یہ کہہ کر مجھ سے دور بیٹھنے کی تلقین کرتا کہ یہ کرمنل ماٸنڈڈ ہے۔

مجھے یاد ہے پورے طالب علمی کے دور میں مجھے صرف ایک استاد یہ کہہ کر مطمٸن کرسکا کہ میں تنخواہ کے لیۓ آپ کو پڑھاتا ہوں آپ پرچہ پاس کرنے کے لیۓ انہیں یاد کرلے …….بھلا جھوٹ کو کوٸی یاد کرسکتا ہے جھوٹ تو جھوٹ ہے ، جھوٹ میں مزید جھوٹ شامل کرکے اچھے نمبر لینا تو عام سی بات ہیں اور میں تاریخ کے قابل اسٹوڈنٹ ہو کے بھی مارجن پہ پاس ہوتا تھا ، اسکی وجہ یہی تھا کہ میں پرچے میں سوال کے جواب دینے کے بجاۓ میں اپنے ٹیچرکے لیۓ مزید سوال لکھتا ۔

کامریڈ ہمارے سماج میں سب سے بڑا جرم سچ بولنا ہے نہ جانے کتنے ماٶں کے لاڈلے ، باپ کے سہارے اسی سچ بولنے کے پاداش میں محافظوں کی زندانوں میں قید ہیں ، ان کی جرم صرف اور صرف سچ بولنا اور لوگوں کو آٸینہ دکھانا تھا ۔ تمہیں یاد ہے ایک دن آوارہ گردی سے تھک کر جب ہم دونوں اپنے گھر کی جانب چل رہے تھے آپ نے روڈ کے کنارے ایک پاگل نما شخض کو دیکھ کر کہا تھا کہ ان لوگوں نے ہمارے غریب ، لاچار اور بےسہارا بلوچوں کو بدنام کرنے میں کوٸی کسر نہیں چھوڑے ہیں ، ان غیر ملکی مصنوعی پاگلوں کی وجہ سے یہاں غریب اور مصنوعی پاگلوں کے درمیان پہچان کا فرق مشکل ہوگیا ہے …….نہ جانے ریاست ان پہ کروڑوں روپٸے کیوں ضاٸع کردیتا ہے . جب یہ ایک جگہ پر جم کے گھنٹوں بیٹھ جاتے ہیں تو خود کو محب وطن سمجھنے والے بے شعور لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ فرشتہ صفت انسان امن کو برقرار رکھنے اور دہشت گردی سے ریاست کو بچانے کے لیۓ ایک جامع منصوبہ بندی کررہا ہے لیکن گھنٹوں بعد جب وہ اپنا نشست چھوڑ کے اُٹھ جاتا ہے تو اس فرشتہ صفت انسان کی جگہ سے شراب کی ایک خالی بوتل کے سوا کچھ نہیں ملتا …….بقول شیر دل غیب مجھ پہ تاکید کی گٸی کہ خاموش رہوں ۔ کچھ نہ بولوں ، کچھ نہ لکھوں ، کچھ نہ کہوں ، کچھ بھی نہ سوچوں ……..لیکن امبل جو انسان اپنے عہد کی ترجمانی کچھ بھی بن کر نہیں کرسکتا تو اسے یوں پُتلا بن کر جینے کا ذرا بھی حق حاصل نہیں ہونا چاٸیۓ۔

کامریڈ یاد ہے ایک دن آپ نے کہا تھا کہ ہم جب بھی گھر سے نکلتے جہاں بھی جاتے جس پہاڑ کے بھی اوپر چڑھتے ہم سے کوٸی یہ نہیں پوچھتا کہ کون ہو ؟ کہاں سے آرہے ہو ؟ کہاں جارہے ؟

کامریڈ کبھی ”امبل “ کو پڑھ لینا تاکہ ان محافظوں کے کرتوتوں کے بارے میں جان سکو ……ہاتھ اوپر ! کوٸی حرکت نہیں ….میں جیسے تھا ، ویسے ہی بیٹھا رہا ۔

نگاہیں اُٹھا کر دیکھا تو قبرکی چار دیواری کے تینوں اطراف وطنِ عزیر کے محافظ G-3 تھامے کھڑے ہیں ۔کوٸی حرکت نہیں …….امبل ! تم ہی کہو کہ ایک نہتا ، خالی دست شخص کسی قدیم قبر کی چار دیواری کے سرہانے بیٹھا دنیا و مافیا سے بیگانہ کیا حرکت کرسکتا ہے ؟

اس حکم کی بھی تعمیل ہوگٸی. پھر حکم ہوا جامع تلاشی لو اس کی …..یہ عمل بھی دہرایا گیا ۔ میں نے ایک بار پھر نگاہیں تینوں اطراف پھیلا دیں ۔ تلاشی کے بعد حکم ہوا ، ہاتھ نیچھے کرو ۔

تلاشی یہ مامور محافظ نے بتایا “ صاحب ! جیب سے شناختی کارڈ ، اے ٹی ایم کارڈ سروس کارڈ اور موٹر ساٸیکل کے کاغذات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ شاپر میں ایک بوتل ، ایک رجسٹر اور سگریٹ پڑے ہیں ۔ صاحب کا حکم ہوا کہ میں ان کے روبرو کھڑا رہوں ۔ اس حکم کی بھی تعمیل ہوگٸ ۔

میں اور سپاہ کا میجر آمنے سامنے تھے ۔ یہ عمل پہلی بار نہیں دہرایا جارہا تھا کہ مجھے تعجب ہوتا ۔ اب تو روز کے معمول کا حصہ تھا ۔ جس کے سب عادی ہوچکےتھے ۔

لیکن اس ایک بات کا شدید دُکھ ہوا جب اس نے پوچھا کون ہو ؟

یہ بھی نہیں کہ میں یہ الفاظ پہلی بار سن رہا تھا کہ جس کے باعث مجھے دُکھ اور احساس ہوتا ۔ کیونکہ روزانہ شہر جاتے ہوۓ ان ہی سوالوں سے واسطہ پڑتا تھا یہ ذرا بھی اجنبی اور نامانوس الفاظ نہیں ہیں ۔

پچھلی ایک دہاٸی سے زاٸد عرصہ ہوگیا کہ ”کون ہو تم“ کی باز گشت روز کہیں نہ کٸی سناٸی دیتی ہے۔

تین الفاظ پر مبنی اس فقرے کو اتنی بار دُہرایا گیا ہے کہ بلوچستان کے طول و عرض میں اب یہ اپنی معنی ہی کھو بیٹھا ہے ۔

اپنے گھر کے آنگن میں بیٹھے ایک شخص کے لیۓ یہ سوال کہ ”تم کون ہو“موت کا مقام نہیں تو اور کیا ہے ۔

کامریڈ ……. زگرین کے بارے تو آپ کو میں بتا چکا ہو وہ میرا بچپن کا ایک دوست ہے لیکن اب میں اس کو استاد مانتا ہوں ۔ عجیب دلکش انسان تھا کبھی پرنس روڈ پہ ملاقات کے لیۓ پہنچتا تو کبھی نوشکے اور ڈال جان کے صحراٶں میں اُسے ساتھ پاتا تو کہیں ……..زگرین آپ نے مجھے فون پہ کہا تھا کہ آپ وڈھ میں کیا کرررہے ہو خضدار پہنچو مجھے آپ کو کسی شخص سے ملوانا ہے اور میں دو سال سے خضدار میں آپ کے انتظار میں ہوں لیکن آپ نہیں آۓ ……مجھے یقین ہے کہ آپ مجھ سے ایک نہ ایک دن ضرور ملوگے ، میں جانتا ہوں کہ آپ اپنے وعدے کے کتنے پکے ہیں بس اُس وقت تک آپ کی سلامتی کیلٸے دعاگو رہوں گا ، جہان بھی ہو سلامت رہو …….سنگت میں خضدار میں رہتے ہوۓ کبھی خود سے بیزار نہیں ہوا لیکن جب محافظ تلاشی کے بہانے پورے خضدار کو اپنے حصار میں لیتے ہیں ، تو گویا خضدار کو نہیں بلکہ کسی نے میرے دل کو پسیج دیا ہو۔ کامریڈ جب بھی میں کبھی جذباتی ہوتا تو زگرین مجھے ایک نصیحت کرتا کہ ایک بھرے بازار میں ایک لوہار کو کبھی کام کرتے دیکھا ہے ، ایک لوہار لوہے کو ایک اوزار میں ڈھالنے کے لیۓ بازار کے اتنے بڑے ہجوم سے بے نیاز ہوکر لوہے پہ ہتھوڑے سے کیسے وار کرتا ہے ……؟

آج بھی میں اس کے فلسفے پے عمل پیرا ہوں لیکن وہ آج کہاں ہے ؟ کس حال میں ہے ؟ رابطہ کیوں نہیں کرتا ؟ یہ تو میں نہیں جانتا لیکن اتنا مجھے یقین ہے کہ وہ جہاں بھی ہے جو بھی کررہا ہے مجھے اس پر یقین ہے ۔

کامریڈ کبھی کبھی مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے کسی ہم فکر ، ہم خیال شخص سے بحث کرنے کے بعد دل کے کتنے بوجھ اتر جاتے ہیں دل ہلکا سا محسوس ہوتاہے لیکن ان حالات میں ہم فکر و ہم خیال شخص کو ڈھونڈنا اس پر مکمل بھروسہ کرنا شاید اس دنیا کا سب مشکل کام ہے ۔

کامریڈ ادیبوں کے سیاہی ختم ہوۓ لیکن سماج کے ظالم نہ سدھرے نہ ان کے ظلم کم ہوۓ ۔ قلمکاروں کے مضمون پڑھ کے لوگ ان پہ دلاٸلی بحث کے بجاۓ ان پہ کیچڑ اُچھاڑنے کو اپنے لیۓ شرف سمجھنے لگے ہیں لیکن کامریڈ ایک ادیب کے تحریر کے بارے میں کبھی غورکیا ہے کہ ایک ادیب تحریر لکھتے وقت کن قرب سے گزرتاہے ….سیاہی نہیں یہ تحریریں جسم کے خون چوستے ہیں ….. ایک تحریر مکمل ہوتے ایک ادیب کے لیٹروں کےحساب سے خون پیتا ہے ۔ ایک نوجوان کو وقت سے پہلے بوڑھا کردیتا ۔

کامریڈ شعور دھوکہ دیتا ہے ماردیتا ہے بندے کو ۔ بلوچ اور بلوچیت کا درد رکھنا عام سی بات نہیں کٸی لوگ اپنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، کٸی لوگ زندانوں کے نذر ہوگۓ ہیں جرم کیا تھا ان کا ، محض شعور رکھتے تھے ، آواز بلند کرتے تھے ، مظلوم کا حامی بن کے ظالم کو للکارتے تھے ۔ پتا ہے دشمن کے اس وحشی پن کٸی ادیبوں کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو منجمد کرکے رکھ دیا ہے ۔

کامریڈ اگر تم میرے ان بے معنی باتوں سے اکتاہٹ محسوس نہیں کرتے تو سنو…..جب ایک بلوچ ماں اپنا خون نچوڑ کر بچے کو جنم دیتی ہے تو ننھے وجود پر پڑنے والی پہلی نظر ہی اُسے تمام تکالیف سے آزاد کردیتی ہے۔ پھر ماں کے انگ انگ سے محبت کے دریا پھوٹ پڑتے ہیں اور بچہ اُس آفاقی محبت کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے لگتا ہے۔ نوجوان ہوتا ہے ، پڑھنے لکھنے کے بعد شعور پاتا ہے، ظلم کے خلاف بولتا ہے ظالم کو للکارتا ہے ۔ جب ایسے ہی ایک معصوم بے گنا بلوچ کو لاپتہ کردیا جاتا ہے ۔جب اس کو تھپڑ مارنے اور زدوکوب کرنے کی ویڈیو منظر عام پر آتی ہے تو وہ ماں کس کرب سے گزرتی ہوگی کبھی سوچا ہے۔ درحقیقت یہ وہی نفسیاتی رویہ ہے جس میں قابض کسی بے بس اور غلام کی بے بسی سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔طاقتور ہونے کا یہ احساس اِس قدر نشہ آور ہوتا ہے کہ انسان اس کی خاطر اپنا سب کچھ بیچنے لگتا ہے ۔

لیکن کامریڈ اس ناچیز کی ایک بات یاد رکھ لینا تسلسل کبھی ٹوٹتا نہیں ایک ادیب سرنڈر کردے تو دس اور ادیب پیدا ہونگے مظلوم کا سنگت بن کے ظالم کو للکارینگے ۔ ظلم کو ایک نہ ایک دن ختم ہونا ہے ……..ایک اور بلوچ اسلم بن کے ریحان پیدا کردے گا ، ایک اور شاری پیدا ہوکر میرو کو رخصت کر کے ندر ہوگا ….ایک اور ثمیہ ریحان کے فلسفے کو تقویت دے گا ، ایک اور مبارک ، قاضی بن کے ایک اور کمبر پیدا کرے گا ، ایک اور بوڑھا بلوچ ”پیغمبرِ آجوٸی “ کا لقب پاۓ گا ۔

کامریڈ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ وہ کون سا جذبہ ہے جو انسان کو بغیر کسی غرض بغیر کسی لالچ کے خود کو فنا کرنے پہ مجبور کردیتا ہے اس کا جواب میں آپ سے سننا چاہتا ہوں تاکہ آپ میرے ان بےمعنی باتوں سے اکتاہٹ محسوس نہ کرو …….کامریڈ یاد ہے مجھے کہ آپ کافی دیر خاموش ہوۓ کچھ نہ بولے پھر اچانک آپ بول پڑے ۔

قربانی کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے اندر تقوی کی صفت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام عملوں کے اندر خلوص پیداکریں سماج اور وطن کے لیۓ مخلصی سے کام کریں ۔ انسان کبھی بھی خود کو اس وقت تک موت کے حوالے نہیں کرتا جب تک اسے سو فیصد یقین نہ ہو کہ وہ حق پر ہے ۔

اگر کوٸی شخص ننانوے فیصد اپنے نظریہ سے متفق ہو لیکن وہ ایک فیصد اسے قربانی دینے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتا ہے ۔ کامریڈ آپ کے ان جملوں میں ایک فلسفہ چھپا تھا۔

میں ایک محب وطن بلوچ ہوں اور بلوچ معاشرے میں پھیلی نا انصافی سے قطعًا متفق نہیں ہوں ۔ آج عدل و انصاف کا نام صرف مذہبی کتابوں میں ہی ملتا ہے ، حق دار اگر یہ سمجھتا ہے کہ اسے خودبخود اپنا حق مل جاۓ گا تو یہ اس کی سب سے بڑی بھول ہے ، اس ملک میں حق دار صرف وہی ہے جو اپنا حق چھین سکتا ہے اور یہاں جینے کا حق صرف اُسے ہے جو جینے کے ڈھنگ جانتاہے ۔

کامریڈ میں انقلاب کا متمنی ہوں اور میری زندگی کا مقصد یہی ہے کہ بلوچستان میں ایک ایسا انقلاب آجاۓ کہ عام بلوچ کو اس کا حق ملے، عدالتوں میں عدل و انصاف ہو بلوچ کی حکمرانی ہو اور انسانیت کی حکمرانی ہو اور وہ سب کچھ ہو جو ایک آٸیڈٸل معاشرے کے لیۓ تصور کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن کامریڈ …..اس مقصد کے حصول کے لیۓ میری انفرادی کوششیں کسی کام آنے والے نہیں اس کے لیۓ بڑے پیمانے پر محنت کرنا ہوگی ، ہر بلوچ کے زہن کو ہموار کرنا ہوگا اور انہیں احساس دلانا ہوگا کہ بلوچ اور بلوچستان کے لیۓ انقلاب کتنی ضروری ہے ۔

کامریڈ تم ایک پڑھے لکھے اور بلوچ درد رکھنے والے انسان ہو اور آپ بخوبی اس چیز سے واقف ہو کہ انسان نے اپنے ہم نسل انسانوں کو کس طرح وحشت و بربریت کا نشانہ بنایا اس سے دنیا کی تاریخ بھی بھری پڑی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں تہذیبِ انسانی نے ارتقا ٕ کی منازل طے کیں وہ انسانی وحشت و بربریت جو میدانِ جنگ میں آمنے سامنے کی لڑاٸی میں ظاہر ہوا کرتی تھی وہ غاٸب ہوگٸی اور اس کی جگہ ایسی درندگی وجود میں آٸی جو پہلے سے کٸی گناہ بڑی ہوٸی ہے ۔ کیونکہ پہلے اس درندگی کا نشانہ صرف اور صرف سپاہی یا جنگجو بنتے تھے مگر آج کے اس دور میں اس درندگی سے بلوچ عورتیں اور بچے بھی محفوظ نہیں ۔۔۔کتنے افسوس کی بات ہے ۔ اسی لیۓ تو مریدبلوچ لکھتے ہیں کہ

نہ جنگ ئس آب ئنا چاہک نہ دود ئس نئے کہ عزتّ ءِ

دنو کم ظرف و خن شیف و خدا دشمن تے دشمن تف ……!!!

کامریڈ یہی وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں انتشار ، بدنظمی ، لاقانونیت اور دہشت پھیلاٸی جاۓ ۔ ۔اور یہ لوگ بلوچ عوام کا اعتماد ان کے حقیقی محافظوں سے اُٹھانا چاہتے ہیں جو بلوچ قوم و بلوچستان کی بقا کے لیۓ اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ لیکن اب اِن کو ناکامی ہوگی کیوں کہ اب بلوچ ان قبضہ گیروں اور حقیقی محافظوں کے بیچ فرق محسوس کرچکا ہے ۔

کامریڈ ۔۔۔۔۔۔ کبھی سوچا ہے کہ کتنے عظیم انسان ہوں گے وہ جن کی انتھک محنتوں اور سرماۓ سے یہ غظیم کام شروع ہوگیا ہوگا اور کتنے عظیم ہے وہ جو اس تحریک کا حصہ بنتے ہیں بے حد محنت کرتے ہیں اور وقت آنے پر خود کو قربان بھی کرتے ہیں ۔ کامریڈ ۔۔۔۔ آپ تو مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ انقلاب لانے کے لیۓ ، غیر کو بھگانے کیلیۓ اپنے وقت ، دولت ، جان اور اولاد کی قربانی دینے والے ہی اصل میں بلوچ محافظ اور حقیقی وطن پرست ہیں اور اِن کے ہاں اُن لوگوں کے لیۓ کوٸی معافی نہیں جنہوں نے بلوچ ماٶں بہنوں کی عصمت دری کی ہو ، بلوچ نوجوانوں کو یا تو زندانوں کے نذر کردیا ہو یا پھر انہیں بے گناہ شہید کیا گیا ہو ۔

کامریڈ ۔۔۔۔۔ بلوچ قومی تحریک مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوٸے وطن کے فرزندوں کی بے شمار قربانیوں کو اپنے دامن میں سمیٹتے ہوۓ محو سفر ہے اور اس چیز کو میں ماننے کے لیۓ تیار ہی نہیں کہ کوٸی کہے کہ بلوچ غلام ہے کیوں بلوچ تو اول سے ہی مزاحمت کا راستہ چنا ہے ، لڑا ہے مرا ہے ، لیکن غلامی کو کبھی دل سے قبول ہی نہیں کیا ۔

کامریڈ یہ بلوچ کی بقا کی جنگ ہے یہ ایک ایسی تحریک ہے جس میں شامل لوگوں کے حوصلے چلتن سے بھی بلند ہے اسے کوٸی کاروبار نہ سمجھا جاۓ کہ اگر دل بھر گیا تو اسے چھوڑ دیا جاۓ کوٸی اور راہ کے راہی بن جاۓ ۔ 1917 میں جب انگریز بہت سارے بلوچوں کو شہید کیا تو کافی سارے لوگ کمزور پڑ گٸے گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور ہوگٸے لیکن پھر نورا مینگل جیسے کردار اُبھر آۓ تن تنہا دشمن سے مقابلے کرنے کی ٹھان لی ۔

پھر نواب نوروز خان جیسے بہادر شخصیت نے اس تحریک کو دوام بخشی ۔ نواب نوروز خان کو جب بیٹے کی میت کا آخری دیدار کروایا گیا تو انھوں نے بیٹے کی ڈھلکی ہوئی مونچھوں کو اپنی انگلیوں سے تاؤ دے کر اُوپر کیا اور کہا ’لوگوں کو بتا دیں وہ ان کی موت پر ماتم نہ کریں بلکہ ایسی خوشی کا اظہار کریں کہ جیسے ان کی شادی ہوئی ہو۔

آج بھی بلوچ قیادت میں ایسے شخصیات کی کوٸی فقدان نہیں جو خود کے ساتھ اپنے اولادوں کو بھی بہ خوشی وطن و قوم کی خاطر قربان کرنے تیار ہیں ۔

کامریڈ ۔۔۔۔۔۔ بعض ایسے بڑے مقاصد ہوتے ہیں جن کو ایک فرد اپنے کاوشوں سے حاصل نہیں کرسکتا ، ایک شخص فکر و نظریہ تو دے دیتا ہے مگر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیۓ ایک نظام اور ایک تنظیمی ڈھانچہ درکار ہوتا ہے ۔ تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل کے بعد بانی تنظیم کے دیۓ ہوۓ بنیادی اصولوں کے ساتھ وہ ڈھانچہ کام کرتا ہے اور اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے اور میرے خیال میں کچھ بنیادی ستون ہیں جن پر عمل پیرا ہونا تنظیم کو کامیابی کی طرف گامزن کرتا ہے ۔ جن میں سے پہلا ستون Authority یعنی اختیارات دوسرا ستون Responsibility یعنی زمہ داری اور تیسرا ستون جوابدہی جسے انگریزی میں شاید Accountability کہا جاتا ہے ۔

کامریڈ ۔۔۔۔۔۔ایک مغربی مفکر کہتے ہیں کہ کسی بھی تنظیم کی اپنے مقاصد کے حصول میں کامیابی کا اندازہ اس تنظیم کے طریقہ کار، حکمت عملی، انتظامی ڈھانچے اور کارکنوں کو دی جانے والی سہولیات اور مراعات سے مت لگایا جائے یہ چیزیں تنظیم کو مضبوط کرنے کے لئے کام ضرور آتی ہیں، کارکنان کا تنظیم پر اعتماد بڑھاتی ہیں لیکن یہ چیزیں تنظیم کی ترقی اور مقاصد کے حصول کی ضمانت نہیں دیتیں بلکہ کسی بھی تنظیم کی ترقی اور کامیابی کا اندازہ اس تنظیم کے کلچر سے لگایا جا سکتا ہے۔

مختلف نظریات کے حامل لوگ کبھی کسی ایک منزل کے حصول کے لئے متفق نہیں ہو سکتے۔ اسی لئے جب کوئی کسی تنظیم کا حصہ بنتا ہے تو اسے اپنے نظریات سے دستبردار ہو کر اس تنظیم کے مقاصد اور نظریات کو اچھی طرح سمجھ کر اس کا حصہ بننا پڑتا ہے کیونکہ اگر ایک طرف وہ ایک بڑے نظام کا حصہ بھی ہو اور الگ نظریہ کا حامل بھی تو اس کا یہ عمل تنظیم کے مقصد کے حصول میں بھی رکاوٹ پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے اور وہ شخص اپنے آپ کو بھی مشکل میں ڈالتا ہے۔ یہاں اپنے نظریات سے دستبردار ہونے کا مطلب تنظیم کی بنیادی فکر سے عدم تصادم ہے وگرنہ تنظیم کے اندر رہتے ہوئے اصول و ضوابط کے مطابق راستے کے تعین اور حکمت عملی میں تبدیلی کی رائے دینا نظریات سے انحراف نہیں کہلاتا بلکہ تنظیمی مشاورت کا حصہ ہے۔

کامریڈ یہ سب بتانے کا مقصد بات چیت کو لمبا کرنا نہیں بلکہ یہ اس سوال کا جواب ہے جو آپ اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں : آپ کبھی بھی نا اُمید اور مایوس نہیں ہوتے اس کی کیا وجہ ہے …….؟

یہ سب اہلیت بلوچ میں ہوتے ہوٸے میں کیسے مایوس یا ناامید ہوسکتا ہوں ۔۔

کامریڈ آپ کے شکایتیں بجا ہیں کہ اس سلسلے کو روکنا نہیں چاہیۓ یہ سلسلہ مسلسل چلتے رہنا چاہیۓ …..آپ کی باتیں بجا ہیں لیکن یہ پُدین دیر کا چشمہ نہیں جو سالوں چلتا رہے یہ سلسلہ میرے کمزور جسم کے خون سے چلتا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ اس کمزور جسم کو مزید کمزور کیا جاۓ کیونکہ میں خود کو صرف ایک کام کیلۓ وقف کرنے کا قاٸل نہیں …..یہ تو محض عملی جدوجہد سے بھاگنے کا ایک بہانہ ہوگا لیکن اس جسم سے کٸی اور کام لینے ہیں ۔