اس جرگے میں خطے کے عوام کو درپیش مشکلات پر ماہرین اور سیاسی لوگ اظہار خیال کریں گے جبکہ حکومت کو ان مسائل کے حل کے لیے قرارداد کی شکل میں تجاویز پیش کی جائیں گی۔
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں پشتون تحفظ موومنٹ کے زیراہتمام ‘قومی جرگہ’ شروع ہو گیا ہے۔ اس جرگے میں پختونخوا سمیت بلوچستان اور پنجاب کے کئی علاقوں سے بھی لوگوں نے شرکت کی، جن میں زیادہ تر نوجوان شامل ہیں۔ سہہ روزہ جرگے کا آج پہلا دن تھا جس کے لیے انتظامات میں منتظمین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے جرگے سے قبل مرکزی اور صوبائی حکومت کا جرگہ منعقد ہوا تھا جس میں صوبہ بھر کی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی تھی اور متفقہ طور پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو پشتون تحفظ موومنٹ کے قائدین کے ساتھ مذاکرات کا اختیار دیا تھا۔
اس جرگہ میں نوجوانوں اور دیگر افراد کے علاوہ بڑی تعداد میں خواتین نے بھی شرکت کی۔ جرگے میں شریک خاتون عصمت شاہ جہان نے جرمن نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کو اپنی سیاست بچانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ “اگر آج وہ بات نہیں کریں گے تو کل لوگ ان کو ووٹ نہیں دیں گے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ ایک ‘ٹروتھ ری کانسی لیشن کمیشن’ بنائیں اور اگر ریاست یہ نہیں کرتی تو ہم خود شروع کریں گے یہاں جتنے بھی اسٹیک ہولڈرز ہیں وہ ریاست اورعوام کے تعمیرنو پر بات کریں گے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے جرگے کی پہلی نشست میں گذشتہ دو دہائیوں سے اس خطے میں جنگ کے اثرات، نقل مکانی کے منفی اثرات، معاشی مشکلات، لاپتہ افراد کے مسائل اور خطے میں معاشی بحران پر ماہرین نے بریفنگ دینی ہے۔ اس جرگے کا اعلان دو ماہ قبل کیا گیا تھا پولیس نے تین اکتوبر کو جرگے کے مقام پر کریک ڈاون شروع کیا تھا جو تین روز تک جاری رہا۔ چند روز قبل جرگہ کے مقام پر موجود لوگوں پر فائرنگ کی گئی جس میں پشتون تحفظ موومنٹ کے چار افراد ہلاک جبکہ دس زخمی ہوگئے تھے۔
اس دوران پاکستان حکومت نے پی ٹی ایم پر پابندی لگاتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا جس کی تمام سیاسی جماعتوں نے مذمت کی اور پھر زیادہ تر نے اس میں شرکت کا اعلان کیا۔