پولیس رکاوٹوں، پریس کلب کی بندش کے باجود حب میں شہریوں کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج

142

تحریک کو تشدد اور رکاوٹوں سے نہیں روکا جاسکتا، جبری گمشدگیوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے۔ بی وائی سی

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بلوچستان بھر میں جبری گمشدگیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات بالخصوص بلوچ طلباء کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنانے کے ردعمل میں “خاموشی کو توڑنا ، جبری گمشدگیو ں کے خلاف کھڑ ے ہونا ” کے عنوان کے تحت احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور ریلی نکالی گئی۔

بی وائی سی کی جانب سے منعقد احتجاج کو روکنے لئے حکام نے لسبیلہ پریس کلب پر رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیا تھا تاہم اس کے باوجود شہری بڑی تعداد میں احتجاج میں شریک ہوئیں۔

مظاہرین نے اس دوران محمود آباد روڈ سے ریلی نکالی جو مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے مرکزی شاہراہ پر موندرہ چوک کے قریب دھرنے کی شکل اختیار کرگیا، جبری گمشدگیوں کے خلاف اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے حق میں شدید نعرہ بازی کی گئی اور لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔

مظاہرین میں اس رواں مہینے جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے جنید اور یاسر حمید کے لواحقین سمیت جبری لاپتہ راشد حسین، عزیز ابراہیم بلوچ، اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ سیاسی اور طلباء تنظیموں کے ارکان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

اس موقع پر لاپتہ افراد کے لواحقین نے حکومت اور پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں کو جبری گمشدگیوں میں ملوث ہونے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

احتجاج کے حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کہنا تھا تمام رکاوٹوں اور پولیس کی بھاری نفری کے باوجود، حب چوکی شہری گھروں سے باہر نکل کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ یہ احتجاج ہماری بلوچستان بھر میں احتجاجی سلسلے کا حصہ ہے، جس کا مقصد بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔

اس موقع پر تنظیم کا کہنا تھا احتجاج میں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے اہلخانہ بھی شریک تھے، جنہوں نے اپنی دردناک کہانیاں بیان کئے اور انصاف کا مطالبہ کیا۔

انکا کہنا تھا قبل از کراچی میں ہونے والے احتجاج کو سبوتاژ کرنے کے لئے پولیس نے گذشتہ روز ہمارے ساتھیوں پر لاٹھی چارج کی اور تشدد کے بعد پرامن مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا آج بھی حب چوکی میں پولیس رکاوٹیں کھڑی کی گئی تاکہ ہمارے احتجاج کو روکا جاسکے۔

بی وائی سی کا مزید کہنا تھا جبری گمشدگیوں کے خلاف ہمارا احتجاجی عمل جاری رہے گا، متاثرہ خاندانوں کی آوازوں کو رکاوٹوں یا تشدد سے دبایا نہیں جا سکتا۔ جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کی یہ لہر، بلوچ نسل کشی کا تسلسل، پورے بلوچستان میں جاری رہے گا۔