پنجاب میں بلوچ طلباء کو امتیازی سلوک، سہولیات کی کمی کا سامنا ہے – بلوچ کونسل بہاولپور

48

بلوچ طلباء کونسل بہاولپور نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست اور اس کی تمام تر مشینری بلوچ طلباء کے حوالے سے ایک متعصب پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

بلوچ طلباء کونسل بلاولپور کے رہنماؤں نے بہاولپور پریس کلب میں صحافی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ڈائریکٹوریٹ آف بلوچستان سے مختص نشستوں پر آنے والے طلبہ کو نومینیشن لیٹر ملنے کے باوجود بھی یونیورسٹی ایڈمیشن دینے سے انکاری ہے، اس سلسلے میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل بہاولپور نے انتظامیہ کے ساتھـ کہیں بار ملاقاتیں کئے اور یونیورسٹی سے درخواست کیا کہ اس مسئلے کو جلد سے جلد حل کیا جائے، مگر یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے متواتر ایک ہی جواب سامنے آرہا ہے کہ ہمیں ابھی تک وفاق یا پنجاپ گورنمنٹ کی طرف سے فنڈز موصول نہیں ہوئے ہیں اور ہم بغیر فنڈ کے کسی بھی صورت ایڈمیشن نہیں دے سکتے۔

انہوں نے کہا اسی سلسلے میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے ذمہ داران نے ڈائریکٹر آف اکیڈمک اور رجسٹرار اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے بھی ملاقاتیں کیں لیکن ان کی طرف سی ہمیں کوئی خاطر خواہ ردِ عمل نہیں ملا۔

طلباء کا اس موقع پر کہنا تھا جیسا کہ بلوچستان سے طلبا کو ڈائریکٹوریٹ آف بلوچستان کی طرف سے نامزد کیا جاتا ہے تو اس سلسلے میں ہم نے ایجوکیشن سیکریٹری بلوچستان، ڈپٹی ڈائریکٹر آف کالجز بلوچستان سے بھی رابطہ کیا لیکن ان کی طرف سے ہمیں موثر جواب موصول نہیں ہوا، ان کا بھی بیانیہ یہی تھا کہ یونیورسٹی کو فنڈز معاویہ کرنا وفاقی حکومت یا ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی زمہ داری ہے، تو ہم نے بہ ذریعہ ای میل ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ان معاملات سے آگاه کیا لیکن ان کی طرف سے بھی ابھی تک ہمیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

طلباء نے کہا یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور بلوچ طلبا کو ایڈمیشن دینے سے انکاری ہے، اس سے پہلے بھی 2022 کے فال اور اسپرنگ میں مختص نشستوں پر بلوچستان سے آئے طلبہ کو ایڈمیشنز نہیں دیئے جا رہے تھے، اس سلسلے میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل بہاولپور کی طرف سے اسلامیہ یونیورسٹی کے مین گیٹ کے سامنے ستره 17 دنوں کا احتجاجی کیمپ لگایا گیا تھا۔ جس کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور بلوچستان کے طلبا کے مابین ایک معاہده ہوا جس میں یہ طے پایا کہ مختص نشستوں پر آنے والے طلبہ کے اخراجات 50% اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور 50% وفاقی حکومت ادا کرے گی-

یہ معاہده بمورخہ 12/10/2022 گورنر ہاؤس پنجاپ لاہور میں قرار پایا۔ یہ معاہده تحریری شکل میں بی ایس سی بہاولپور کے پاس موجود ہے لیکن پھر بھی فال 2024 میں بلوچستان سے آنے والے طلبا کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور مختص نشستوں پر ایڈمیشن دینے سے انکاری ہے۔

انہوں نے کہا جیسا کہ پنجاب کے تمام یونیورسٹیوں میں ڈائریکٹوریٹ آف بلوچستان کی طرف سے مختص نشستوں پر آئے ہوئے طلبہ کو سالانہ وظیفہ ملتا ہے جس کی فنڈنگ بلوچستان حکومت کی طرف سے کی جاتی ہے جو بذریعہ چیک یونیورسٹی کو ملتے ہیں اور بعد میں طلبہ کو فراہم کیے جاتے ہیں لیکن اس دفعہ یونیورسٹی کی طرف سے طلبا کو وظیفہ دینے میں بھی تاخیر کیا جارہا ہے، جامعہ کی انتظامیہ طلبا کو وظیفہ وقت پر نہیں دے رہے ہیں اور خوامخواه چیزوں کو طول دینے کی کوشش کررہے ہیں۔

طلباء کا اس حوالے سے کہنا تھا ایک مسئلہ جو لگاتار دیکھنے میں آتا ہے، وه یہ ہے کہ مختص نشستوں پر آئے طلبا کو ہاسٹل الاٹمنٹ فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا درپیش ہوا کرتا تھا لیکن اس دفعہ یونیورسٹی انتظامیہ اور چئیرمین آل کونسل اوپن میرٹ پہ آئے ہوئے بلوچ طلبا کو ہاسٹل الاٹمنٹ دینے سے انکاری ہیں اس سلسلے میں بھی بی ایس سی بہاولپور کے ذمہ داران نے مسلسل چئیرمین آل کونسل اور چیف وارڈن کے ساتهـ ملاقاتیں کیں لیکن انہوں نے بہت ہی تلخ زبانی سے الاٹمنٹ دینے سے انکار کردیا۔

اوپن میرٹ پر آئے بلوچ طلبہ یونیورسٹی کے باقی طلبہ کی طرح اکیڈمک اور ہاسٹل الاٹنٹ فیس کی مکمل ادائیگی کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود بلوچ طلبا کے ہاسٹل میں رہائش جیسے بنیادی مسئلے پر حق تلفی کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

طلباء کے مطابق یوں تو تجربے سے ہم نے یہ سیکھا ہے، یہ مکمل ریاست اور اس کی تمام تر مشینری بلوچ طلبا کے حوالے سے ایک متعصب پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ لیکن بہاولپور میں موجود بلوچ طلبا اس وقت متعدد دشواریوں کا سامنا کر رہے ہیں، ایک طرف بلوچ وہ انتظامی مسائل ہیں، جن کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں اور ہماری ناقص عقل کے مطابق یہ تمام اقدام صرف اور صرف بلوچ طلبا پر تعلیمی دروازے بند کرنے کی بہیمانہ کوششیں ہیں، ان انتظامی مسائل کے علاوہ بہاولپور میں رہائش پذیر بلوچ طلبا کو یونیورسٹی کے اندر اور یونیورسٹی سے باہر مسلسل پروفائلنگ اور ہراسمنٹ کا سامنا ہے۔ جس کے سبب بلوچ طلبا کی متعدد نفسیاتی دشواریوں کو سامنا ہے، اور یہ اُن کے تعلیمی سفر میں رکاوٹ کا سبب بن رہی ہے۔

بلوچ کا کہنا تھا اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم یونیورسٹی انتظامیہ اور بلوچستان و پنجاب کی صوبائی حکومتوں سمیت وفاقی حکومت تک بلوچ طلبا کے مستقبل کو بچانے اور اُن کی خاطر تعلیمی راستوں کو کھولنے کے لئے ہمارے مطالبات پہنچانا ہے۔

۱- مختص نشستوں پر نامزد بلوچ طلبا کو جلد از جلد اسکالرشپ کے تحت ایڈمیشن دیا جائے، تاکہ اُن کا تعلیمی سال ضائع نہ ہو اور اس امر کی یقین دہانی کرائی جائے کہ مستقبل میں دوبارہ بلوچ طلبا کے مختص نشستوں پر یونیورسٹی یا صوبائی و وفاقی حکومت کی جانب سے مسئلہ نہ کیا جائے گا۔

۲- یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے بلوچ طلبا کو درپیش ہاسٹل اور انتظامی مسائل کا مؤثر حل نکالا جائے۔

۳- بہاولپور سمیت پنجاب بھر میں بلوچ طلبا کو درپیش ہراسمنٹ اور پروفائلنگ کے مسائل کو فی الفور حل کیا جائے اور یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ شناخت کی بنیاد پر بلوچ طلبا کو اس طرح کے ہراسمنٹ کا شکار نہ بنایا جائے گا۔

طلباء نے مزید کہا ہم یونیورسٹی انتظامیہ سمیت پنجاب و بلوچستان کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کو ان مطالبات پر عمل درآمد کے لئے چار دن کا وقت دیتے ہیں، اگر آنے والے پیر تک ان مطالبات پر عمل نہیں کیا گیا تو بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل بہاولپور کی طرف سے یونیورسٹی کے اندر احتجاجی دھرنے کا انعقاد کیا جائے گا، اور یہ احتجاجی دھرنا تب تک جاری رہے گا جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے۔

مزید بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل، پنجاب کی طرف سے ایک سوشل میڈیا کئیمپین چلائی جائے گی، جس میں ہم تمام دوستوں کو شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔