بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے انسانی حقوق کے ادارے پانک نے اپنی ستمبر 2024 کی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں پریشان کن اضافے کو اجاگر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں جبری گمشدگیوں کے 41 واقعات ، 3 ماورائے عدالت قتل اور 25 افراد پر تشدد کے واقعات درج کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان متاثرین کو پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے نشانہ بنایا۔
پانک نے ان مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کہا، جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، اور بلوچ شہریوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک پاکستانی فورسز کی طرف سے بلوچ عوام کے خلاف دانستہ تشدد کی مہم کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ ایک منظم نسل کشی ہے جو فوری بین الاقوامی مداخلت کا تقاضہ کرتی ہے۔
تنظیم نے مزید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جبری لاپتہ کیے جانے والوں میں سے بہت سے لوگوں کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جبری لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاتی ہیں۔
گمشدگیوں کے علاوہ، رپورٹ میں دو بھائیوں، بیس سالہ محمد اسماعیلاور 17 سالہ محمد عباس کے وحشیانہ قتل کی تفصیل دی گئی ہے، جنھیں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے کلات میں ان کے گھر سے اغوا کیا اور بعد میں مردہ پائے گئے۔ ایک اور المناک کیس میں حکمت اللہ بلوچ شامل ، جنھیں نوشکے میں پرامن احتجاج کے دوران گولی مار دی گئی گئی تھی، اور وہ ستمبر کراچی کے ایک اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔
پانک نے پاکستان کی جانب سے فورتھ شیڈول پالیسی کے استعمال پر بھی توجہ دلاتے ہوئے کہا اس سے ہزاروں سیاسی کارکنوں، طلباء، ڈاکٹروں اور پیشہ ور افراد پر آزادی کے حامی مسلح تنظیموں سے تعلقات کا جھوٹا الزام لگا کر نگرانی میں رکھا گیا ہے۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے ، اس پالیسی نے پرامن کارکنوں پر ظلم و ستم کو مؤثر طریقے سے قانونی شکل دی ہے، اور ریاستی فورسز کو بغیر کسی نتیجے کے حراست میں لینے، تشدد کرنے اور یہاں تک کہ قتل کرنے کے لیے چھوٹ فراہم کی ہے۔
پانک نے اپنے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ عالمی برادری ان جنگی جرائم کی تحقیقات کرے اور پاکستانی ریاست کو بلوچ نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہرائے۔ شواہد بہت زیادہ ہیں، اور دنیا مزید خاموش نہیں رہ سکتی۔