ناول ‘ماں’ کا جائزہ
مصنف:میکسم گورکی
تبصرہ نگار : سلطانہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میکسم گورکی:
میکسم گورکی کا اصل نام الیکسی پیشکوف تھا۔ میکسم گورکی 28 مارچ 1868 کو نزنی نووگورود میں پیدا ہوا اور 18 جون 1936 کو فوت ہوگیا۔ گورکی اپنی تحریروں میں اپنا نام “گورکی” لکھتا تھا جو روسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے “کڑوا”۔ اس کا تعلق روسی سماجی جمہوری جماعتِ مزدور سے تھا۔
جب وہ 6 سال کا تھا تو اس کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ اپنی والدہ کے ساتھ ان کے والدین کے گھر میں رہتا تھا۔ میکسم گورکی جب اپنی ماں کے ساتھ اپنے نانا اور نانی کے ہاں رہنے لگا۔
گورکی کو اپنی نانی سے بہت محبت تھی، چونکہ گورکی کی نانی بہت محبت اور خیال رکھنے والی اور ہمدرد انسان تھی۔ اگر یوں کہا جائے کہ گورکی نے محبت اور فطرت سے محبت کرنا اپنی نانی سے سیکھا تھا، وہ گورکی کی تربیت کا حصہ تھا۔ گورکی نے بچپن میں اپنی نانی سے بے تحاشا کہانیاں سنتا تھا اور ان کہانیوں کی دلچسپ اور منفرد بات یہ تھی کہ ان میں سچ اور انصاف کی جیت ہوتی تھی۔
گورکی کی ماں نے اپنے والدین کے ہاں چند مہینے گزارنے کے بعد دوسری شادی کرلی۔
گورکی نے لکھنا پڑھنا اپنے نانا سے سیکھ لیا تھا۔ گورکی کے نانا کی طبیعت اس وقت اچھی نہیں تھی۔ افلاس ایک ایسا مرض ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اس کی بد مزاجی اور طبیعت کے بہت سے عیب ابھر آئے تھے۔ گورکی کے نانا کا مزاج ایسا بن گیا تھا کہ جن پر ان کا بس چلتا وہ ان پر اپنا غصہ اتارتا۔
گورکی نے اسکول جانا شروع کیا مگر بدقسمتی سے وہ اپنی تعلیم کو پورا نہیں کر سکا۔ وہ اکثر و بیشتر اپنے نانا کی ناگوار باتیں سنتا اور سختیاں بھی برداشت کرتا تھا۔ لیکن بڑھاپا تھا، کہیں پہ وہ گورکی کو ڈانٹتا تو دوسری طرف وہ گورکی سے بہت محبت کرتا تھا۔ نانا کی محبت گورکی کے لیے ایک ایسا ٹھکانہ تھا جہاں گورکی دل کے سب درد اور خوف دور ہو جاتے تھے جب وہ اپنے نانا کی گود میں بیٹھ کر ان سے اپنی ہر بات ڈسکس کرتا۔
کچھ دنوں کے بعد گورکی کی ماں کو دق کی بیماری ہوگئی اور وہ فوت ہوگئی۔ گورکی بچپن سے غربت اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے گزرا جن کا اکثر اثر اس کی تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اور چھوٹی سی عمر میں گورکی نے کام کرنا شروع کیا۔ اور محض 12 سال کی عمر میں گھر سے پیدل ہی روس کے سفر کو نکلا۔ گورکی روس میں ایک وکیل کے ہاں کام کرنے لگا اور اس وکیل نے اس کے تعلیم حاصل کرنے میں بہت مدد کی تھی۔
گورکی مسلسل کئی سالوں تک مختلف جگہوں پر کام کرتا رہا۔ اور اپنی نوکریاں بدلتا رہا۔ اور مختلف جگہوں سے مختلف تاثرات سمیٹے۔ اور بعد میں انہیں اپنی تحریروں میں لایا۔ وہ کم عمری میں ہی علم و ادب میں دلچسپی رکھتا تھا۔ انہوں نے روسی معاشرے میں محنت کش اور پسماندہ طبقے کی جدوجہد پر واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔ بہترین نثر نگاری کرتے رہے۔
گورکی کی پہلی کتاب “7 بیسٹ شارٹ اسٹوریز” 1898 میں شائع ہوئی اور اس کتاب نے اچھی خاصی کامیابی سمیٹ لی اور اس کی تحریروں نے لوگوں کے دلوں میں ایک خوبصورت مقام بنا لیا۔
گورکی کی ابتدائی تحریروں میں غور کیا جائے تو رومانوی اور انقلابی بھی کہا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد پر گورکی نے اس وقت کے سرگرم ورکرز کے درمیان بہت شہرت حاصل کی۔
گورکی نے اپنی تحریروں میں زار سلطنت کی کھل کر مخالفت کی جس کی وجہ سے اس نے بہت سی مشکلات، قید و بند اور جلاوطنی بھی جھیلی ہے۔ سوویت یونین کے لٹریچر میں گورکی کا ایک منفرد اور قابلِ فخر مقام ہے۔
گورکی کی مشہور کتابیں:
1. ماں
2. ٹیلز آف اٹلی
3. مائی چائلڈ ہڈ
4. 7 بیسٹ شارٹ اسٹوریز
5. دی لوئر ڈیپس
ماں (ناول) کا تعارف:
گورکی کی مشہور کتاب “ماں” سوشلسٹ ریئلزم پر مبنی اپنے وقت کا پہلا ناول تھا۔ اس کو تاریخی حوالے سے سوویت یونین کے لٹریچر کا سنگِ میل قرار دیا گیا ہے۔ یہ ناول ایک حقیقی واقعے کے اوپر لکھا گیا ہے جو 1902 میں سوویت یونین کے ایک فیکٹری ٹاؤن ساروو کے اوپر لکھا گیا ہے۔ جب گورکی نے یہ ناول لکھنا شروع کیا تو وہ بیرون ملک مقیم تھا۔ یہ ناول گورکی نے 1906 میں لکھنا شروع کیا اور 1907 کے شروع میں ختم کیا۔
اس ناول کو روسی زبان میں لکھا گیا ہے اور کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا ہے۔
ناول “ماں” دو حصوں پر مشتمل ہے:
پہلا حصہ جس میں 30 ابواب ہیں۔
دوسرا حصہ جس میں 29 ابواب ہیں۔
یہ ناول “ماں” سب سے پہلے نیویارک کے ایک میگزین Appletons میں انگریزی زبان میں شائع کیا گیا۔ اور 1908 میں اس ناول کو مختلف ممالک کے میگزینز اور لائبریریوں میں پڑھنے کے لیے منظرِ عام پر لایا گیا۔ لیکن سوویت یونین میں اس کتاب کے پڑھنے پر پابندی لگ گئی تھی۔ اور اس کتاب کے شائع کرنے پر بھی مکمل پابندی تھی۔ یہ ناول سوویت یونین کے مزدوروں کی زندگی کو بیان کرتا ہے اور 1905 میں جو انقلاب برپا ہوا تھا یہ ناول اس انقلاب کی منظر کشی کرتا ہے جو اس وقت ناکام رہا۔
اس ناول کے شائع ہوتے ہی سوویت یونین کے بورژوا نے اس پر تنقید کی اور انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس ناول کے مصنف نے اس کتاب کے ذریعے آرٹسٹک تصویروں کو پھیلایا ہے۔
اگر اس ناول کا بغور مطالعہ کیا جائے تو سوویت یونین کے اندر اس وقت ایک طویل مدت سے لے کر بیسویں صدی کے شروعات تک مطلق مارکسزم تھا۔
اگر سوویت یونین کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس وقت سوویت یونین میں دو سماجی طبقات پائے جاتے تھے۔
بورژوا طبقہ: یہ طبقہ بہت اعلیٰ اور امیر ترین طبقہ تھا۔ جس میں اس وقت کے بیوروکریٹس اور صنعتکار شامل تھے۔ یہ طبقہ بہت اثر و رسوخ رکھتا تھا اور اسے ہر طرح کی آزادی حاصل تھی۔ یہ لوگ بہت خوشحال اور پُرسکون زندگی گزارتے تھے۔
پرولتاریہ طبقہ: یہ مزدور طبقہ تھا جو فیکٹریوں میں مزدوری کام کرتے تھے۔ اور بہت مشکل سے اپنا گزر بسر کرتے تھے۔ بہت سخت محنت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود بہت گھٹن زدہ زندگی گزارتے تھے۔ اس طبقے کو کسی بھی طرح کی آزادی حاصل نہیں تھی نہ زندگی کی بنیادی سہولیات میسر تھیں۔ اس کے علاوہ گالی گلوچ اور نشہ آور چیزیں استعمال کرتے تھے۔ یہ لوگ غربت سے بھی نیچے کے لائن میں زندگی گزارتے تھے۔ انتہائی مفلس ہوتے تھے۔ غربت کی وجہ سے ان کے بچے تعلیم سے محروم تھے۔ یہ سوویت یونین کے گاؤں اور شہروں میں لگے فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور تھے۔
لیکن آہستہ آہستہ اس طبقے کے کچھ لوگوں کو احساس ہوگیا کہ ان کے ساتھ بہت زیادہ ناانصافی ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو کبھی بھی اپنی زندگیوں میں تبدیلی نہیں لا سکیں گے۔
اس مقصد کے لیے بہت سے ہم خیال لوگ اکٹھے ہوگئے جن کا مقصد سوویت یونین میں ایک انقلاب لانا تھا اور ان ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد ان کی زندگی کا ایک عظیم مقصد بن گیا اور اس عظیم مقصد کے لیے مزدور طبقے نے بہت جدوجہد کی، بہت سی مشکلات اور سختیاں برداشت کیں۔
ماں (ناول) کے حقیقی کردار:
اب میں اس ناول کی طرف آتی ہوں جو ایک حقیقت پر مبنی کہانی ہے۔ یہ ایک عورت نیلوونا اور اس کے بیٹے پاویل کی کہانی ہے جس کو گورکی نے بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔
اس ناول کا آغاز کچھ یوں ہے: نیلوونا ایک ایسی عورت ہے جو ایک فیکٹری میں دن بھر مزدوری کا کام بھی کرتی تھی اور جب رات کو گھر آتی تو گھر کا کام بھی نمٹا لیتی تھی۔ لیکن نیلوونا کا شوہر نشہ کرتا تھا اور نیلوونا کو مارتا پیٹتا اور گالیاں بھی دیتا تھا۔ نیلوونا کئی سالوں تک اپنے شوہر میکائیل ولاسوف کے یہ ظلم سہتی رہی اور بہت ہی تکلیف دہ زندگی گزارتی رہی۔
لیکن جس معاشرے میں نیلوونا رہ رہی تھی اس وقت اس معاشرے میں عورتوں میں غلط اور صحیح کا اتنا شعور نہیں تھا لیکن اس وقت بھی نیلوونا کو صحیح، غلط اور اچھے برے کی تمیز تھی۔
نیلوونا ایک نیک دل اور انصاف پسند عورت تھی۔ نیلوونا اپنے انہی خوبیوں کی وجہ سے اس انقلابی تحریک کے اچھائیوں سے واقف ہوتی ہے اور اس تحریک کے مقصد اور اہمیت کو سمجھ لیتی ہے جس کی وجہ سے وہ اس کہانی کا خاص کردار بن جاتی ہے۔
نیلوونا کے شوہر کے وفات ہونے کے بعد اس کا نو عمر بیٹا پاویل ولاسوف ایک فیکٹری میں کام کرنے لگتا ہے تو پاویل ولاسوف کو پرولتاریہ اجتماعی کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور ہی اس طبقے کے نظام میں کوئی انقلابی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ نیلوونا کے بیٹے پاویل کی یہ سمجھداری ایک بنیادی وجہ بنتی ہے۔ اس مقصد کے لیے پاویل کو بہت سے ہم خیال دوست مل جاتے ہیں تو اس عظیم مقصد کے لیے انقلابی کتابوں کا مطالعہ شروع کرتے ہیں۔ اور راتوں کو سب دوست پاویل کے گھر میں اکٹھا ہوتے ہیں اور کتابوں کو مطالعہ کرنے کے بعد ان پر گفتگو کرتے ہیں اور اپنے کام کو بحث میں لاتے ہیں اور اپنے اگلے دنوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ کون سا دوست کون سی ذمہ داری سنبھالے گا۔
یہ نوجوان لوگ سیاسی حوالے سے مکمل سرگرم لوگوں کی ایک جماعت بن چکے تھے۔ یہ معاشرے کے وہ نوجوان تھے جو نشہ نہیں کرتے تھے، جو گالی گلوچ کے الفاظ نہیں نکالتے تھے۔ یہ تبدیلی ان نوجوانوں میں ان انقلابی کتابوں کو پڑھنے سے آئی تھی۔ اس انقلابی جماعت کے نوجوانوں میں اس معاشرے کے باقی لوگوں کی طرح بری عادتیں نہیں تھیں۔
نیلوونا اپنے بیٹے کو اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ کر ششدر رہ جاتی کہ اس کا بیٹا اور اس کے باقی ساتھی غیر معمولی سرگرمیوں میں شامل تھے۔ نیلوونا اپنے بیٹے پاویل کے لیے بہت پریشان ہوتی تھی اور آہستہ آہستہ جب پاویل کے دوست اس سے اکثر راتوں کو ملنے آتے تو اس کی پریشانی خوف میں تبدیل ہوتی گئی۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نیلوونا پاویل اور اس کے ساتھیوں کی باتیں سنتی، ان پر غور کرتی، ان کی گفتگو پر گہرائی سے سوچنے لگتی کہ یہ صداقت کا راستہ ہے، یہ حق اور انصاف کی باتیں کرتے ہیں۔ نیلوونا کو اندازہ ہوگیا کہ اس کا بیٹا ایک انقلابی بن چکا ہے۔ نیلوونا اپنے بیٹے کے لیے بہت پریشان رہنے لگی تھی کہ اس کے بیٹے کا کیا انجام ہوگا۔ یہ ریاست اس کو اور اس کے دوستوں کو اٹھا کر جیل میں ڈالے گی۔ اس سوچ اور فکر سے وہ کانپ جاتی تھی۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نیلوونا کو پاویل اور اس کے ساتھیوں کی فکری و سیاسی گفتگو میں دلچسپی ہونے لگی تو وہ آہستہ آہستہ خود کو اس تحریک کا حصہ سمجھنے لگی اور اکثر سوچتی کہ وہ کسی بھی طرح اس تحریک سے الگ نہیں ہو سکتی۔
اس خیال اور فکر کے بعد نیلوونا کو اس کی زندگی کا ایک اہم مقصد مل جاتا ہے۔
یکم مئی کے لیے فیکٹری کے سب ہم خیال دوست پاویل کے ساتھ مل کر ایک بڑے جلسے کی تیاریاں شروع کرتے ہیں۔ جیسے جیسے یکم مئی نزدیک آرہا تھا لیکن جب رات کو وہ دن کے شور شرابے اور پریشانیوں سے تھک کر بستر پر لیٹتی تو اسے دل میں ایک درد سا محسوس ہوتا۔
تقریباً ہر رات کو یومِ مئی کے پرچے جن میں مزدوروں سے یومِ مئی کے مظاہرے میں حصہ لینے کی اپیل، احاطے کی دیواروں اور یہاں تک کہ پولیس چوکی کے دروازوں پر بھی چپکا دیے جاتے اور ہر روز یہ پرچے کارخانے میں نظر آتے۔
صبح کے وقت پولیس والے گالیاں دیتے ہوئے بستی میں آ کر پرچوں کو پھاڑ دیتے لیکن کھانے کے وقت ہوا پھر پرچوں کو اڑا کر راہگیروں کے قدموں میں ڈال دیتی۔
شہر سے خفیہ پولیس کے آدمی بھیجے گئے جنہوں نے ہر موڑ پر کھڑے ہو کر مزدوروں کے چہروں کو غور سے دیکھنا شروع کیا جو کھانے کے وقت ہنستے بولتے کارخانے آیا جایا کرتے تھے۔
صورتِ حال پر قابو نہیں پا سکتے تھے۔ پولیس کی بے بسی دیکھ کر ہر شخص کو لطف آ رہا تھا۔ یہاں تک کہ بوڑھے مزدور بھی مسکرا کر ایک دوسرے سے کہتے:
“دیکھو تو یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟”
ہر طرف مزدوروں کے جتھے کھڑے جوشیلی اپیل پر بحث کرتے نظر آنے لگے۔ زندگی میں جوش و ابال آ رہا تھا۔ اس موسمِ بہار میں ہر شخص کے لیے زندگی پُرآہنگ اور دلچسپ ہوگئی تھی کیونکہ اس میں ایک نیا عنصر پیدا ہوگیا تھا۔
یکم مئی مزدور کی آواز فضا میں ہیجانی اور پُرامید آوازوں کی گونج تھی۔ جب لوگ اپنے گھروں کی کھڑکیوں اور دروازوں میں کھڑے متجسس نگاہوں سے پاویل اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ رہے تھے تو نیلوونا کے آنکھوں کے سامنے ہر چیز گھومنے لگی۔
لوگ خاموش اور متوقع ہوگئے۔ جھنڈا اوپر تھا، ایک لمحے کے لیے تھر تھرایا پھر لوگوں کے سروں پر لہراتا ہوا آگے بڑھنے لگا کیونکہ اسے فوجیوں کی بھوری دیوار کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔ سرخ پرچم کو اٹھائے ہوئے لوگ اور آگے بڑھے اور خاکی وردیوں والے لوگوں کی دیوار اور زیادہ نزدیک آگئی یہاں تک کہ وہ فوجیوں کا مشترکہ چہرہ دیکھ سکتی تھی۔ ایک مسخ شدہ چہرہ زرد رنگ کی قطار میں گھس گیا جو سڑک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی تھی جس پر ناہموار طریقے سے رنگ برنگی آنکھیں رہیں تھیں۔
اس جلوس میں پاویل اور اس کے کئی ساتھیوں کو گرفتار کرکے لے گئے۔
لیکن پاویل کی گرفتاری کے بعد اس کے کچھ سرگرم ساتھی ان کے کاموں کو سر انجام دے رہے تھے۔
پاویل کی گرفتاری کے بعد نیلوونا اپنے گھر میں اکیلی رہ گئی لیکن کچھ دن گزرنے کے بعد پاویل کا ایک ساتھی نکولائی نیلوونا سے ملنے آیا اور اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گیا۔
وہاں جا کر نیلوونا نکولائی کی بہن سے ملتی ہے جو اس تنظیم کی ایک سرگرم رکن تھی۔ نیلوونا نکولائی کی بہن صوفیا سے مل کر اس تنظیم کی سرگرم رکن بن جاتی ہے اور تمام سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔
اور نیلوونا ان سرگرمیوں میں صوفیا کے ساتھ ساتھ ہوتی اور بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگی۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ صوفیا نیلوونا سے کہتی ہے:
“ان لوگوں کو کتابیں اور پرچے پہنچاتے رہنا بہت ضروری ہے۔”
نکولائی میز پر انگلیوں سے بجاتے ہوئے کہا:
“تمہیں جانے میں ڈر لگتا ہے نیلوونا؟” صوفیا نے سوال کیا۔
ماں کو تکلیف ہوئی۔
“میں کبھی ڈری ہوں؟ پہلی بار گئی تو ڈر نہیں لگا۔ اور اب۔۔۔” ایک دم سے جملہ پورا کیے بغیر اس نے سر جھکایا۔ اس سے بھی پوچھا گیا کہ تمہیں ڈر لگتا ہے۔ کیا اس کام میں کوئی تکلیف تو نہ ہوگی۔ کیا یہ کام آسانی سے ہو سکے گا۔ تو ایسا محسوس ہوتا جیسے اس سے کہا جا رہا ہو کہ تھوڑا احسان کر دو اور اس وجہ سے اسے ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ اسے سب سے الگ ہٹا کر اس کے ساتھ مختلف قسم کا برتاؤ کرتے ہیں۔
“یہ سوال کیوں کیا کہ مجھے ڈر لگتا ہے یا نہیں؟” اس کی آواز بھر آئی ہوئی تھی۔ “تم لوگ آپس میں تو ایسے سوال نہیں کرتے۔”
نکولائی نے کچھ پریشان ہو کر عینک اتاری اور پھر لگا لی اور اپنی بہن کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔
اس تکلیف دہ پریشانی سے ماں بھی پریشان سی ہوگئی۔ میز کے پاس سے کچھ مجرمانہ انداز میں اٹھی اور کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کہ صوفیا نے محبت سے اس کا ہاتھ پکڑ کر نرمی سے کہا:
“مجھے معاف کر دو۔ آئندہ کبھی ایسا نہ کہوں گی۔”
اس بات پر ماں مسکرا دی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ لوگ اس کے متعلق بہت سنجیدگی سے باتیں کرنے لگے۔
نیلوونا بلا خوف جاتی، گاؤں گاؤں جہاں فیکٹریاں ہوتی تھیں، کسانوں سے ملتی، ان کو کتابیں اور پرچیاں پہنچاتی۔
اس طرح اپنے بیٹے پاویل کے جیل جانے کے بعد وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورے خلوص کے ساتھ نبھاتی رہی۔ اور وہ اس انقلابی تحریک کی ایک سرگرم رکن بن جاتی ہے۔
پاویل ولاسوف جو نیلوونا کا ایک لوتا بیٹا ہے، وہ اس انقلابی تحریک میں ایک ہیرو کا کردار ادا کرتا ہے۔
بالآخر نیلوونا بھی ان پرچوں کے ساتھ پکڑی جاتی ہے اور اس کا بیٹا پاویل جیل میں سائبیریا کی طرف جلاوطنی کا منتظر ہوتا ہے۔
جب نیلوونا غیر قانونی پرچوں کے ساتھ پکڑی جاتی ہے تو وہ بآوازِ بلند تقریر کرتی ہے۔ اور اپنی تقریر میں بہت بلند آواز میں للکار کے کہتی ہے:
“خون کا ساگر بھی صداقت کو نہیں ڈبو سکتا ہے۔ بے وقوفو، اس سے صرف نفرت میں اضافہ ہوگا۔”
اس ناول کے ذریعے گورکی نے نہ صرف پرولتاریہ کو جگانے میں مدد کی ہے بلکہ یہ پیغام دیا کہ وہ یکجا ہو جائیں اور برابری اور انصاف کے اصولوں کے لیے جدوجہد کریں۔
اسی ناول میں پاویل ولاسوف کا ایک ساتھی ایک پُرجوش انداز میں کہتا ہے کہ:
“بعض اوقات آگے بڑھنے کے لیے ہمیں خود اپنے خلاف جانا پڑتا ہے۔ ہر چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ اپنے پورے دل تک کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اپنے مقصد کے لیے جان دینا آسان ہے لیکن کچھ اس سے بھی زیادہ قربانی دینی ہوتی ہے اس چیز کی جو اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز ہو اور ایسی قربانی دے کر ہم اس صداقت کو اور زیادہ مستحکم کرتے ہیں جس کے لیے ہم لڑ رہے ہیں۔ وہ صداقت جو دنیا میں ہمیں سب سے عزیز ہے۔”
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں