میں جارہا ہوں ۔ سلیمان بلوچ

897

میں جا رہا ہوں 

سلیمان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

ایک جنگ زدہ خطے میں ہر کسی کی زندگی یکسر نہیں ہوتی۔ ہر کسی کی زندگی میں اپنی ہی حیثیت کے تقاضے اور مصیبتیں ہوتی ہیں اور یہ سب اس آدمی پر منحصر ہے کہ وہ اپنی مصیبتوں کو کس سانچے میں ڈھال کر خود کو کس طرح نکھارتا ہے۔

  شام کے نیم سرد یخ بستہ ہوائیں شام کی خوبصورتی میں مزید رنگ بکھیر رہی تھی گرمیوں کی ہوائیں اپنی تمام تر زمہداریوں کو سردیوں کے کاندھوں پر ڈال کر روپوش ہونے جا رہی تھی کہ اسی الجھنوں کو دو کالم میں ڈھال کر وہ شخص اپنے لبوں سے صرف دو الفاظ کا رٹہ لگا رہا تھا،،زمین یا ماں،،زمین یا ماں،، کون افضل ہے کون بہتر ہے، وہ ماں جو گرم و سرد راتوں کو خود ساری تکالیف برداشت کرکے اپنی بیٹے کو آرام سے سلاتی ہے یا وہ ماں جو طوفانی آندھیوں سے سرد و گرم ہوائیں ادھار لیکر اپنے اوپر پلنے والے نوجوان کو فراہم کرکے اسے ایک بے خوف پر سکون نیند سلاتی ہے۔

اسی کشمکش میں یوں ہی ماں آکر سرہانے میں بیٹھ کر اپنے بیٹے کا سر دبانے لگتا ہے اور مہر بھری آنکھوں سے اپنے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہےکہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں پتہ نہیں کل ہم ہونگے یا نہیں، بہتر یہی ہے کہ میرے آخری فیصلے کو مانو تاکہ میری بھی پریشانی کم ہو جائیں۔ سادہ ماں اپنی تمام غموں کو ایک مسکراہٹ کے پیچھے چھپانے کی بہت کوشش کرتا ہے لیکن وہ بیٹا جو اس ہی ماں نے تربیت دے کر بڑا کیا ہو وہ باآسانی سے اپنی ماں کی تکلیف کو بھانپ سکتا تھا۔وہ خاموشی سے اپنی ماں کی چہرے کو دیکھتا رہا۔کیونکہ وہ جانتا تھا کہ میں اپنی ماں کی تمام امیدوں پر پانی پھیرنے والا ہوں۔کاش کہ وہ اپنی ماں کو بتا سکتا کہ میں جا رہا ہوں ایک ایسے مقصد کیلئے جہاں ہم کامیاب ہوئے تو یہاں کوئی بھی ماں اپنے بیٹے کیلئے غمگین نہیں ہوگا اور نہ ہی آخری وقت وہ اس بات پر پریشان ہونگے کہ میرے جانے کے بعد میرے بیٹے کا کیا ہوگا۔

آج سے 5 سال پہلے میں سڑک کے کنارے پر کھڑا تھا کہ دو تیز رفتار موٹر سائیکلوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تصادم ہوا دوسرے موٹر سائیکل پر ایک عورت بھی تھی جو حادثے کی وجہ سے اس کے سر پر چھوٹ آئی اور اس کا چہرہ خون سے لت پت ہو گیا جونہی ہم مدد کیلئے نزدیک پہنچے ۔میں نے دیکھا اس کے زبان پر ایک ہی کلام مسلسل دورائے جا رہا تھا کہ ،،میرے بچوں کا کیا ہوگا ،،میں قربان جاؤں ماں کی اس ممتا سے جو خود کی تکلیف سے زیادہ اپنی اولاد کی سلامتی کیلئے فکر مند رہتا ہے۔

جانتے ہو ماں میں نے زندگی میں کسی بھی چیز کی خواہش نہیں اور نہ ہی کسی بھی چیز کیلئے اتنی حسرتیں کیں جتنا میں نے تمہیں خوش رکھنے کیلئے کیا لیکن پھر بھی میں ایک ناکامیاب اولاد رہا ہوں تمہیں ہر وقت مجھ سے گلا تھا اور آگے بھی رہے گا کیونکہ میں ایک اور بے بس ماں کی عشق میں گرفتار ہوں جو مجھے نہ کہیں سونے دیتا ہے اور نہ ہی کہیں رہنے دیتا ہے۔ میں بے بس ہوں ماں میں چاہ کر بھی اپنی اولاد ہونے کا حق ادا نہیں کر سکوں گا ۔میں جانتا ہوں کہ یہ فیصلے تمہیں وقتی طور پر کمزور اور نڈال کر دینگے لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ خود کو سنبھال پاؤ گی کیونکہ آپ ایک ماں ہو اور ایک ماں سے بڑا کوئی یودا(جنگجو ) نہیں ہو سکتا۔

پتہ ہے ماں قدرت نے زمین کو ٫٫ماں٫٫ کا رتبہ کیوں دیا ہے کیونکہ وہ بہت خوبصورت ہے بلکل تمہاری طرح۔جب بھی میں اسے دیکھتا ہوں تو مُجھے لگتا ہے کہ ایک اور ماں مہر بری آنکھوں سے مجھے بوسہ دے رہا ہے۔جب اس زمین کی ہوا میرے کانوں میں سرگوشی کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ تاریک رات میں خوف سے بچانے کیلئے کوئی ماں مجھے لوری سنا رہی ہو جب سورج اپنی گرم تپش کو ساحل کے کنارے سے ٹھنڈا کرکے جارہی ہو تو یوں گمان ہوتا ہے کہ دن بھر کی تکاوٹ میں چور ہوکر ایک ماں اپنے بیٹے کو سیاہ نرم اور ملائم چادر میں اوڈھ کر اسے سلا رہی ہو۔

اوو میرے جنم بھومی ماں آپ نے مجھے نو مہینے کوکھ میں رکھا میرے لئے تمام تکلیف برداشت کیں 15 سال تک مجھے ایک صاف آئینے طرح نکھارا اور شفاف پرورش کی اگر میں آپ کیلئے ایسی ہزاروں زندگی قربان کروں پھر بھی کم پڑیں گے۔ لیکن ماں جانتے ہو میرا ایک اور بھی ماں ہے جو مجھ سے آپ کی طرح بے تحاشہ محبت کرتا ہے کبھی گرنے نہیں دیتا اگر میں غلطی سے گر جاؤں تو وہ مجھے اپنی باہوں میں سمیٹ کر واپس اسی جگہ رکھ دیتا ہے جہاں سے میں گرا ہوں۔ماں جب میرے جسم سے یہ بے رحم روح نکل جاتا ہے تو مجھے کوئی اپنے پاس نہیں رکھتا ہر کوئی مجھ سے بیزار ہونے لگتا ہے پھر لوگ میرے گلے سڑے بدبودار جسم کو اس ماں کے حوالے کر دیتے ہیں جو مُجھے اسرافیل کی سور پھونکنے تک اپنی آغوش میں پناہ دیتا ہے میرے جسم کے بدبودار گوشت کو جزب کرکے میرے ہڈیوں کو زافران جیسی خوشبوؤں سے نوازتا ہے اور پورے دنیا کو فخر سے بتاتا ہے کہ یہ میری اولاد ہے تو اے ماں یہ بتا میں کیوں نہ ایسی ماں کیلئے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں زندگی قربان کروں جو مجھ سے اس قدر محبت کرتا ہے۔

جنت کہاں ہے؟ ماں کے قدموں کے نیچے! تو ماں کہاں ہے؟ اس جنت کے اوپر جس کیلئے ہم سب نے اپنی تمام تر خواہشوں کو  ایک کھٹورے میں بند کر کے دریا میں پھینک دیا۔ تو اے ماں بتا ہم کس جنت کیلئے لڑ رہے ہیں  زمین ہوگا تو ماں ہوگی اگر وہ جنت جیسا زمین ہی نہ ہوگا تو ہم اس ماں کو کہاں ڈھونڈیں گے جس ماں کے قدموں کے  نیچے جنت ہے۔

ایک بزرگ نے ایک قدیم اسلامی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب موسیٰ کا ماں دنیا سے رخصت ہوا تو موسیٰ کوہ نور پر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کیلئے گیا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو تنبیہ کیا، اے موسیٰ جب بھی تم مجھ سے ہمکلام ہونگے تو اپنے زبان سے ایسے کلمات کا ذکر مت کرنا جس کی سے وجہ میرا غصہ تم پر نازل ہو کیونکہ اے موسیٰ اب تمہاری ماں نہیں رہی جس کی دعاؤں کے وجہ سے میں تمہیں بخش دیتا تھا۔ اے ماں قدرت نے آپ کے رتبہ کو اتنا توانائی بخشا ہے کہ آپ کی دعاؤں کے برکت قدرت بھی اپنے فیصلے بدلتا ہے۔

اے ماں جب میں جنگ کیلئے جاؤں تو میرے لئے دعا کرنا کہ ہر میدان میں مجھے کامیابی ملے جیسے آپ ہر وقت کہتی تھی کہ جب میں نماز کے بعد اللہ کے بارگاہ میں ہاتھ اٹھاتا ہوں پہلے اپنی اولاد کی کامیابی کیلئے دعا مانگتی ہوں، اے میری ماں تو میرے لئے دعا کرنا جب میں میدان میں اتروں تو میرا مقابلہ ایسے غضب ناک دشمن سے کرنا جسکی شر سے شیطان بھی پناہ مانگے اور میں اس غضب ناک دشمن کو وہ سبق سکھاؤں کہ اس کے سات پشتیں بھی دوبارہ میری زمین کی طرف دیکھنے کی جرات نہ کرے۔

اے میری ماں اب میرے لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں اس ماں جیسے زمین کے پاس جا رہا ہوں جس کیلئے میرے ہزاروں بھائی بغیر کسی عصب و نسب روا روح یا دولت کیلئے نہیں بلکہ اس فرض کیلئے محو سفر ہیں جس فرض کیلئے وہ زمین اس کی حفاظت میں لگا ہوا ہے میں بلوچستان کے کسی بھی سنگلاخ پہاڑوں میں ہوں یا کسی سبزا میدان میں یا  کوئی بربانی چھوٹی پر ہوں یا سمندر کی گہرائیوں میں، میں ہمیشہ خود کو تیری آغوش میں سمجھوں گا ایک نومولود بچے طرح بے خوف بے باک بے پرواہ آپ کے ساتھ منزل کی جانب گامزن رہوں گا ۔

اے میرے خدا میں آپ کا شکر گزار ہوں آپ نے مجھے دو ایسے بلند ہستیوں کی خدمت کرنے کی توفیق دی جس کی شان کے  آگے آپ کے رحمت بھی سر جھکا رہے ہیں۔

آپ کی محبتوں کا شکریہ الوداع اے میرے ماں۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں