پاکستانی فورسز کے ہاتھوں مختلف علاقوں سے چار بلوچ نوجوان جبری گمشدگی کے نشانہ بنے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستانی فورسز نے بلوچستان اور پاکستانی صوبے پنجاب سے چار بلوچ نوجوانوں کو حراست کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں-
رات گئے پنجاب پولیس اور سول وردی میں ملبوس پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں زیر تعلیم بلوچ طلباء کے ہاسٹلوں اور کمروں پر چھاپہ مارتے ہوئے بلوچ طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا اور چار بلوچ طلباء کو تشدد کرکے اپنے ہمراہ لے گئے۔
لاہور سے اغواء ہونے والے چار بلوچ طلباء میں دو بعد ازاں بازیاب ہوگئے جبکہ شمریز ولد ماسٹر فرید اور دیدگ بلوچ زہری ولد یونس زہری تاحال منظرعام پر نہیں آسکیں ہیں۔
پنجاب میں زیر تعلیم بلوچ طلباء کی کونسل نے ساتھیوں کی جبری گمشدگی کی تصدیق کردی ہے۔
ادھر بلوچستان کے علاقے تربت سے اطلاعات کے مطابق آج صبح پاکستانی سیکورٹی فورسز اور سی ٹی ڈی نے آسکانی بازار میں ایک گھر پر چھاپہ مارتے ہوئے وفا منظور بلوچ اور محیم جان بلوچ کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا ہے-
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دونوں نوجوانوں کی جبری گمشدگی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا وفا درزی کا کام کرتا ہے، جبکہ محیم تربت یونیورسٹی میں بائیو کیمسٹری کا طالب علم ہے، اس وقت وہ اپنا مڈٹرم پیپر دے رہا ہے۔
بی این ایم کے انسانی حقوق کے ادارے پانک کا کہنا ہے کہ کے 2 روز قبل 8 اکتوبر کو پاکستان فورسز نے آواران کے علاقے جھاؤ سے علی محمد نامی شخص کو اسکے دکان سے جبری لاپتہ کردیا ہے۔
بلوچستان میں گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں جبری گمشدگیوں کے ساتویں کیس ہے جو رپورٹ ہوا ہے اس سے قبل لاہور اور حب چوکی سے تین بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی کے رپورٹ آچکے ہیں ۔