ماحل بلوچ، نازک وجود میں طوفان کی طاقت ۔ منیر بلوچ

305

ماحل بلوچ، نازک وجود میں طوفان کی طاقت

تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

ماحل بلوچ عرف زیلان کرد کی کہانی ایک ایسی لازوال داستان ہے جسے وقت کی گرد کبھی مٹا نہیں سکے گی۔ یہ وہ داستان ہے جو انقلابی خوابوں میں سرگوشیاں کرتی ہے، جو دلوں کو بیدار کرتی ہے اور ذہنوں میں ایک نیا شعور پیدا کرتی ہے۔ ماحل صرف ایک حسین اور نازک لڑکی نہ تھی بلکہ مضبوط ارادے کی قوت بھی رکھتی تھی۔ اس نے وہ راستہ چنا جس پر چلنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔ ماحل نے اپنے دل میں ایک ایسی بغاوت کو جنم دیا جس کی گونج صدیوں تک سنائی دیتی رہے گی۔ اس نے اپنے خوابوں کی جھیل کو چھوڑ کر ایک بے کنار سمندر میں بدل دیا، اور اس سمندر سے اٹھنے والا طوفان سب کچھ بدل کر رکھ گیا۔

ماحل کا حسن صرف ظاہری نہیں تھا، بلکہ اس کے دل میں چھپی ہوئی ہمت اور استقامت کا مظہر تھا۔ اس کی آنکھوں میں صرف خواب نہیں تھے بلکہ ایک بے قابو آگ تھی جو ہر اُس ناانصافی کو جلا کر خاکستر کر دیتی تھی جو ظلم کے نام پر کھڑی تھی۔ وہ ایک ایسی سرکش ہوا تھی جو نہ صرف اپنی شدت سے خوف پیدا کرتی تھی بلکہ اپنے حسن سے دلوں کو متاثر بھی کرتی تھی۔ جیسے جھیل کا پرسکون پانی اپنی گہرائی میں طوفان چھپائے رکھتا ہے، ماحل بھی اپنی خاموشی میں ایک ایسی طوفان رکھتی تھی جو دشمنوں کے دلوں میں دہشت کی لہر دوڑا دیتا تھا۔

جب ماحل نے ہتھیار اٹھایا، تو وہ صرف ایک جنگ نہیں تھی بلکہ یہ حسن اور انقلاب کا انوکھا امتزاج تھا۔ ایک ایسی بغاوت جو دشمن کے قلعوں کو ہلا کر رکھ گئی۔ وہ طوفان جو ایک بار اٹھا، پھر کبھی نہ رکا۔ ماحل دشمن کے قلعے توڑتی چلی گئی اور ہر قدم پر ایک نئی تاریخ رقم کرتی گئی۔ وہ صرف بلوچ قوم کی جدوجہد کی علامت نہیں بنی بلکہ ایک بے مثل طوفان کی علامت بھی بن گئی، جس کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔

حسن اور انقلاب کا طوفان: سر بندر سے نانی مندر تک

گڈانی سے جیوانی تک پھیلی ہوئی سمندر کی بے کراں وسعتیں، کنڈ ملیر کی ہواؤں میں سانس لیتی ہوئی زندگی، اور نانی مندر کے صدیوں پرانے سکوت میں چھپی خاموشیاں، سب اس آنے والے طوفان کے گواہ تھے۔ فطرت اور وقت نے مل کر ایک ایسے انقلاب کی تیاری کی تھی جو صدیوں کی خاموشی کو توڑ کر ایک گونجتی ہوئی صدا میں بدل دے گا۔

ماحل، امید کی شہزادی، فطرت کے سنگھاسن پر بیٹھی ہوئی تھی، اپنے اندر وہ قوت لیے ہوئے جو نہ صرف اپنی راہوں کو روشن کرے گی بلکہ ان وادیوں میں ایک نئی زندگی کی لہر دوڑا دے گی۔ نانی مندر، جو صدیوں کا رازدار تھا، اس طوفان کی دھمک سن رہا تھا۔ ہر پتھر، ہر موج، اور ہر سانس اس لمحے کا منتظر تھا جب قدرت اپنی زبان سے وہ کہانی سنائے گی جو ابھی تک سنائی نہیں گئی تھی۔

یہ داستان حسن، طاقت اور خاموش انقلاب کی تھی۔ ایک ایسی کہانی جو دلوں میں روشنی بکھیرے گی اور وقت کی کتاب میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔

سر بندر کی بیٹی: نازک وجود میں طوفان کی طاقت

سر بندر سے گوادر، پسنی، اورماڑہ اور پھر لسبیلہ کی خاموش وادیوں تک، ایک گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے فطرت خود سانس روکے کھڑی ہو، اپنی محبوب بیٹی کو الوداع کہنے کے لیے۔ ہر چٹان، ہر لہر، اور ہر سانس اس کو رخصت کر رہے تھے، جیسے وہ جانتے ہوں کہ یہ لڑکی، جس کے چہرے پر بی بی بانڑی کی مہک ہے، آنے والی تاریخ کا وہ ورق لکھنے جا رہی ہے جسے صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔

بلوچستان کی مٹی میں دفن صدیوں کی کہانیاں اب ایک نئی صبح کے ساتھ بیدار ہو رہی تھیں۔ سر بندر کی یہ دلیر بیٹی، جس نے پاکستانی قانون کی تعلیم کو چھوڑ کر ہتھیار اٹھائے، دشمن کے قلعوں کو خاک میں ملانے چلی تھی۔ اس کے چہرے پر بی بی بانڑی کی روحانی روشنی تھی، اور اس کے قدموں میں وہ عزم تھا جو پہاڑوں کو بھی جھکا سکتا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وادیوں کا سکوت ٹوٹنے والا تھا۔

شہید شاری اور سمعیہ قلندرانی کی وارث:

شہید شاری، جس نے اپنے بچوں کو چھوڑ کر دشمن کے قلعے میں بارود باندھ کر دھماکہ کیا، اور سمعیہ قلندرانی، جنہوں نے بارود کی خوشبو میں پرورش پائی، ان کی قربانیاں تاریخ کا حصہ ہیں۔ لیکن ماحل کی داستان منفرد اس لیے تھی کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ میدانِ جنگ میں لڑی۔

ماحل کا سفر ان راستوں سے گزرتا تھا جہاں ہر قدم پر ریاستی فوج کی چیک پوسٹیں تھیں، لیکن اس نے ثابت کیا کہ بہادری کے ساتھ کوئی بھی راستہ طے کیا جا سکتا ہے۔ وہ قوم کی آنکھوں کا چمکتا ہوا ستارہ بن گئی، ایک ایسا ستارہ جو دن کی روشنی میں بھی اپنی چمک کو برقرار رکھتا تھا۔ اس کی روشنی میں شاری اور سمعیہ کی جرات کا عکس صاف جھلکتا تھا۔

قانون سے بارود کا سفر

ماحل بلوچ عرف زیلان کرد کی داستان ایک ایسے طوفان کی ہے جس نے دشمن کے قلعے ہلا دیے۔ وہ ایک نازک اور حسین لڑکی تھی، مگر اس کے دل میں چھپی ہوئی جرات اور ہمت کسی بھی ہتھیار سے زیادہ بھاری تھی۔ جب اس نے اپنے جسم پر بارود باندھ کر دشمن کے قلعے کی طرف قدم بڑھایا، تو وہ اپنی موت کی پروا نہیں کر رہی تھی۔ اس کی قربانی آنے والی نسلوں کو آزادی کا پیغام دینے والی تھی۔

دشمن کے قلعے کے دروازے پر پہنچ کر اس نے اپنے جسم پر بندھے بارود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس ایک دھماکے نے دشمن کی صفوں میں خوف کی لہر دوڑا دی۔ قلعے کی فصیلیں زمین بوس ہو گئیں، اور دشمن کی طاقت مٹی میں مل گئی۔

اختتامیہ

ماحل کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ جب کوئی شخص اپنی ذات سے بڑھ کر کسی اعلیٰ مقصد کے لیے جیے، تو وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ماحل ایک ایسی طوفان بنی جو نہ صرف دشمن کے قلعوں کو تہس نہس کر گیا بلکہ بلوچ قوم کے دلوں میں ایک نئی امید جگا گیا۔ وہ طوفان جو آسمان کی گرج کی طرح ہمیشہ گونجتا رہے گا، اور یہ انقلابی آگ کبھی نہیں بجھے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں