لوامز یونیورسٹی سہولیاتی کمی اور انتظامی نااہلی کے باعث تباہی کے دہانے پر ہیں – بلوچ طلباء

98

انتظامیہ حق احتجاج کی پاداش میں طلباء پر فائرنگ کرکے جانی نقصان پہنچانے کی کوشش کی، اگر کاروائی نہیں کی گئی تو احتجاج پر مجبور ہونگے – طلباء

بلوچ طلباء نے اوتھل یونیورسٹی میں درپیش مسائل کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان بھر کے دیگر جامعات کی طرح لسبیلہ یونیورسٹی بھی مختلف مسائل کی آماجگاہ بن چکی ہے جہاں انتظامیہ طلباء کو بنیادی سہولیات فراہم نہ کرنے کے ساتھ اساتذہ کو بھی تنخواہیں دینے سے قاصر ہے جو مالی بحرانات کے ساتھ انتظامی نااہلی اور کرپشن کو ظاہر کرتی ہے-

طلباء نے کہا کہ لسبیلہ یونیورسٹی جو کہ پورے خطے میں اپنا ایک اہم مقام رکھتی ہے وقت کے ساتھ ساتھ انتظامی بحرانات اور مقتدرہ قوتوں کی عدم توجہی کے سبب صرف ایک خستہ حال عمارت بنتا جارہا ہے جہاں تعلیم حاصل کرنے کے تمام تر دروازے بند کیے جارہے ہیں اور یونیورسٹی صرف ایک ڈگری دینے اور فیسیں وصول کرنے کا مرکز بنتا جارہا ہے۔

طلباء نے کہا لسبیلہ یونیورسٹی میں سال بھر بمشکل تین سے چار ماہ کلاسز شیڈول ہیں جو کہ امتحانات میں گزر جاتے ہیں اور بیشتر ماہ طالبعلم چھٹیوں میں گزارتے ہیں۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی میں سیمسٹر فیسز میں بے تحاشہ اضافہ ہر سال کیا جارہا ہے جبکہ دوسری جانب پہلے سے موجود اساتذہ کرام کو بھی تنخواہیں نہیں دی جارہی اور اکثر ڈیپارٹمنٹس میں فیکلٹی کی کمی ہے جسے پورا نہیں کیا جارہا ہے۔

انکا کہنا تھا لسبیلہ یونیورسٹی کی زبوں حالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ایک طرف یونیورسٹی مختلف مسائل کی آماجگاہ بنتی جارہی ہے تو دوسری جانب انتظامیہ کے درمیان اقتدار اور عہدوں کی جنگ جاری ہے اور آئے روز اقتدار کے اس جنگ میں عام طالبعلموں کو گھسیٹنے کی روایت زور پکڑتی جارہی ہے جو کہ طالبعلموں کے روشن مستقبل کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں جاری انتظامی بحرانات، فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ، فیکلٹی کا فقدان، اکیڈمک کیلنڈر کی پامالیاں، ڈیپارٹمنٹس میں بنیادی سہولیات کی کمی، ہاسٹلز میس کا درہم نظام ان تمام مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کو حل کرنے کے لئے متعدد مرتبہ یونیورسٹی انتظامیہ سے ملاقاتیں کی گئی لیکن انتظامیہ کے جانب سے ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے الٹا طالبعلموں کو قصوروار ٹھراتا رہا ہے جس کی حالیہ مثال ایک سیمینار میں طلباء کے سخت سوالات کے جواب میں وی سی لوامز یونیورسٹی دوست محمود کی طلباء پر الٹا الزام تراشی ہیں جوکہ افسوس ناک عمل ہے۔

انہوں نے کہا انتظامیہ کا کام طالبعلموں کو تعلیمی ماحول کی فراہمی کے ساتھ تمام تر بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانا ہے لیکن بلوچستان کے جامعات میں انتظامیہ اور عہدوں پر فائز لوگ اپنے فرائض بھول جاتے ہیں جس سے دن بہ دن جامعات تباہ ہوتے جارہے ہیں۔

طلباء کے مطابق انتظامییہ سے کئی بار ملاقاتیں کرنے اور مسائل کو گوشوار کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن جب شنوائی نہ ہوئی تو بنیادی سہولیات سے محروم اور انتظامیہ کے رویے سے تنگ طالبعلموں نے احتجاجاً ہاسٹل وارڈن کے دفتر کے باہر دھرنا دیا اور مطالبہ کیا کہ طلباء کے تمام ہاسٹل مسائل کو حل کیا جائے لیکن ہاسٹل وارڈن اور یونیورسٹی انتظامیہ نے طالبعلموں کے جائز مطالبات کو سننے کی بجائے تشدد کا راستہ اپنایا اور ہاسٹل وارڈن شعیب جمالی کی جانب سے طالب علموں پر براہ راست فائرنگ کی گئی خوش قسمتی سے کوئی بھی جانی نقصان نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا اس افسوسناک واقعہ کے دوران ہاسٹل پروسٹ نوید اور دیگر سیکورٹی گارڈز موجود تھے یونیورسٹی انتظامیہ اور سیکورٹی گارڈز کی موجودگی میں ہاسٹل وارڈن پستول لہرا کر فائرنگ کرتا ہے جو کہ سنگین قسم کے سیکورٹی سوالات کو جنم دیتی ہے کہ ایک تعلیمی ادارے کے اندر ہاسٹل وارڈن خود کس طرح اسلحہ رکھ سکتے ہیں اور اس طرح کھلے عام طالبعلموں پر فائرنگ کرتے ہیں لیکن ابھی تک انتظامیہ کی جانب سے کسی بھی قسم کی کاروائی نہیں کی گئی۔

بلوچ طلباء کا کہنا تھا ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مگسی ہاسٹل میں ہونے والے واقعہ میں ملوث ہاسٹل وارڈن شعیب جمالی کو 48 گھنٹے کے اندر برطرف کرکے اس واقعے میں ملوث تمام کرداروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور ہمارے دیگر مطالبات کی شنوائی کی جائے بصورت دیگر لوامز کے تمام طالبعلم اس طرح کے آمرانہ رویوں کے خلاف یکجاہ ہیں اور مطالبے کی شنوائی نہ ہونے کی صورت میں طلباء جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے سخت لائحہ عمل بنانے پر مجبور ہوں گے جس کی ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ پر ہوگی۔