لاپتہ ساتھی طلباء سہیل و فصیح بلوچ کی عدم بازیابی، بساک کا احتجاج کا اعلان

31

‎سہیل اور فصیح بلوچ کی عدم بازیابی کیخلاف کوئٹہ میں 2 روزہ کیمپ، دیگر شہروں میں احتجاجی ریلی نکالی جائے گی۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کے مرکزی ترجمان بلوچ اپنے ایک بیان میں کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی کے دو طالبعلم سہیل اور فصیح بلوچ جو گزشتہ تین سالوں سے جبری گمشدگی کا شکار ہیں، ان کو 1,2 نومبر 2021 کی رات جامعہ بلوچستان کوئٹہ سے جبراً لاپتہ کیا گیا تھا۔

تنظیم نے کہا ہے کہ ان کی عدم بازیابی پر شدید تحفظات ہیں، صوبائی حکومت کی یقین دہانی اور پارلیمنٹ میں ان کی بازیابی کیلئے گھنٹوں طویل گفتگو کے باوجود آج تین سال گزرنے کے بعد بھی بے قصور بلوچ طلباء کو رہائی نہیں ملی ہے جو کسی بھی المیہ سے کم نہیں ہے۔

انہوں نے کہا طلباء کو یونیورسٹیوں سے اٹھا کر کال کوٹھڑیوں میں بند کرنا قانون اور انصاف کے ساتھ سنگین مذاق ہے جسے بند ہونا چاہیے، سہیل اور فصیح کو آج سے تین سال قبل 2021 کو بلوچستان یونیورسٹی کے احاطے سے جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا جن کی بازیابی کیلئے لواحقین سمیت طلباء تنظیموں نے یونیورسٹی کے اندر دو مہینے تک احتجاج ریکارڈ کرایا جس میں ایک مہینے کی احتجاجی دھرنا شامل ہے جہاں حکومت کی اس یقین دہانی پر احتجاج موخر کیا گیا کہ سہیل اور فصیح کو 15 دن کے اندر بازیاب کیا جائے گا-

انکا کہنا تھا ہمیں اس بات کی یقین دہانی دی گئی کہ انہیں علم تھا کہ وہ کہاں اور کس کے پاس ہیں لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں بندوق کے زور پر تمام فیصلے ہوتے ہیں اور مقتدرہ قوتیں جب چاہے کسی بھی طالب علم کو ماورائے عدالت حراست میں لیکر جبری گمشدگی کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔

بساک ترجمان نے کہا ہے کہ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ عدالتوں سے لیکر دیگر تمام ادارے اس ناانصافی کے خلاف ایکشن لینے سے مکمل طور پر قاصر ہیں، جب طلباء اپنے حقوق کیلئے احتجاج کرتے ہیں تو انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے جبکہ وہ طلباء جو پرامن طور پر اپنی تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں انہیں جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ترجمان نے مزید کہا سہیل اور فصیح کو بلوچستان کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے کے ہاسٹل کے احاطے سے اٹھا کر جبری گمشدگی کا نشانہ بنانا جو بلوچستان میں تعلیمی نظام کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے، اُس وقت کے صوبائی حکومت کے 15 دن اب تین سال میں تبدیل ہوگئے ہیں لیکن سہیل اور فصیح کے حوالے سے اب تک کسی کو علم نہیں ہے، اسی حوالے سے طلبہ تنظیمیں سمیت لواحقین انصاف کے ہر دروزے کو دستک دیتے آرہے ہیں جس میں عدالت میں کیس کا چلنا سمیت کمیشن میں اس کیس کو اجاگر کرنا شامل ہے جہاں بلوچ طالبعلموں کی بازیابی کے حوالے ایک کمیشن بنائی گئی تھی مگر اب تک صرف تاریخ ہی دی جارہی ہے اور کوئی موثر پیش رفت دیکھائی نہیں دے رہے۔

انہوں نے کہا جبکہ دوسری طرف طالبعلموں کی بازیابی کے لئے مختلف ادار میں احتجاج و سوشل میڈیا کیمپئین کا انعقاد ہوتا آرہا ہے مگر بد قسمتی سے مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ملا ہے، بلوچستان میں جبری گمشدگی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جس کا ہزاروں طلباء شکار ہوئے ہیں اور ہزاروں ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔

انکا کہنا تھا سہیل اور فصیح بلوچ جیسے ہونہار طلباء جو اپنے تعلیمی کیرئیر کے لئے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں مگر وہ اب کال کوٹڑیوں میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

بساک ترجمان نے آخر میں کہا ہے کہ ہم تمام اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سہیل اور فصیح بلوچ کی بازیابی کیلئے آواز بلند کریں جو ناکردہ جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں جبکہ اس حوالے سے تنظیم کی جانب سے بلوچستان یونیورسٹی کے اندر دو روزہ کیمپ کا انعقاد سمیت بلوچستان کے دیگر شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی اور سوشل میڈیا میں کیمپئن سمیت ایکس اسپیس کا انعقاد بھی کیا جائے گا، تمام طالب علم اور انسان دوست افراد سے شرکت کی اپیل کرتے ہیں۔