غلامی کی حالت میں حقوق کی بات محض ایک فریب ہے – ڈاکٹر نسیم بلوچ

270

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا ہے کہ سندھی قوم کا مسئلہ بھی بلوچ قوم کی طرح، انسانی حقوق کا نہیں بلکہ قومی آزادی کا ہے۔ غلام قوموں کے لیے انسانی حقوق کا کوئی تصور نہیں ہوتا کیونکہ غلامی کی حالت میں حقوق کی بات محض ایک فریب ہے۔

ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین نے ورلڈ سندھی کانگریس کے زیر اہتمام سندھ سے متعلق 36 ویں انٹرنیشنل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انھوں نے کہا سندھی اور بلوچ خطہ آج سراپا درد بن چکے ہیں، لیکن ہم مایوس نہیں ہیں۔ ہماری قومی سمت درست ثابت ہوئی ہے، اور آج دنیا کے سامنے، ہماری قوم کے سامنے، پاکستانی جبر ننگا ہو چکا ہے۔ جب ریاست تشدد کا راستہ اختیار کرتی ہے، تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ محکوم قوم، اگرچہ بظاہر زیر دست نظر آتی ہے، لیکن حقیقت میں ریاستی عسکری خوف کو شکست دے چکی ہوتی ہے۔ آج لوگ باہر نکل رہے ہیں، اپنی آوازیں بلند کر رہے ہیں، اور مزاحمت اب عوامی نفسیات کا حصہ بنتی جا رہی ہے ، یہی ہماری فتح ہے۔

چیئرمین بی این ایم نے اتحاد کے لیے محض باتوں کی بجائے درست سمت میں عملی یکسانیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہم اتحاد کے فوائد سے بخوبی واقف ہیں، لیکن ہماری اتحاد کی جڑیں ہمارے عمل میں پنہاں ہیں، جب ہمارا عمل اور ہماری منزل ایک واضح راستے پر متعین ہوں گے تو عمل کے میدان میں اشتراک اور دکھ درد بانٹنا یقینی ہوجائے گا۔

انھوں نے پاکستان کے ساتھ کسی نئے عمرانی معاہدے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کچھ سینئر سیاستدان ہمیں ایک نئے عمرانی معاہدے کا جھانسہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، شاید سندھ میں چرچا زیادہ ہو رہا ہوگا۔ یہ استحصالی نظام کو برقرار رکھنے کا ایک نیا طریقہ ہے لیکن ہمیں ثابت قدم رہ کر اپنی قوم کو یہ سمجھانا ہوگا کہ اس دھوکے میں نہ آئیں، کیونکہ غلامی کے کسی بھی نظام میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آتی جب تک کہ آزادی اور خودمختاری حاصل نہ ہو۔

ڈاکٹر نسیم نے کہا قبضہ گیر گوکہ آزادی کی مانگ کرنے والوں کو ترقی کا دشمن قرار دیتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قابض نے کبھی کسی محکوم قوم کو ترقی نہیں دی اگر قابض ترقی دے سکتا تو برطانیہ، جو کہ سائنس اور جدیدیت کے میدان میں دنیا کے سب سے ترقی یافتہ معاشروں میں سے ایک تھا، ہندوستان کو ترقی کیوں نہ دے سکا؟

انھوں نے کہا آزادی اور ترقی یورپ نے بھی مفت میں حاصل نہیں کی انھوں نے بھی ایک تاریک دور دیکھا اور خون کی ندیاں پار کیں ہمیں بھی نہ چاہتے ہوئے انہی راستوں پر خون کی ندیاں پار کرنی ہوں گی۔ ہمیں زیادہ قوت سے چیخنا اور چلانا ہوگا، زیادہ دکھ سہنے پڑیں گے، کیونکہ ہمارا دشمن زیادہ سفاک ہے۔ ہمارے دشمن کی فوج ایک مذہبی جنونی درندہ ہے، جو ہماری نسل کشی اپنا ایمانی فریضہ سمجھ کر کر رہی ہے۔

انھوں نے محکوم اقوام پر سیاستدانوں اور لکھاریوں کو قابض کے نفسیاتی و ثقافتی اثر سے نکلنے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا پاکستان سے پہلے سندھ اور بلوچستان میں کوئی اقلیت نہیں تھی ، اگر کوئی ہندو تھا یا کسی دوسری مذہب سے تعلق رکھتا تھا تب میں وہ اپنے وطن میں دوسروں کے برابر درجے کا شہری تھا۔ آج پاکستانی طرز سیاست کے زیر اثر ہم بھی انھیں اقلیت کہہ رہے ہیں جس سے ہمیں اجتناب کرنا چاہیے۔