طبعِ شعور و فکر ۔ مہرشنز خان بلوچ

198

طبعِ شعور و فکر

‏تحریر: مہرشنز خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‏انسانی ذہن و دماغ کو مختلف ادوار میں مختلف فلسفہ دانوں نے مختلف طریقے سے بیان کیا ہے۔ کچھ کے نزدیک اگر ایک انسان کسی چیز کو دیکھتا، سنتا، محسوس کرتا ہے یا اپنی زندگی کے کسی بھی دور میں کسی نا خوش گوار عمل سے گزرتا ہے تو یہ عمر کے ساتھ ساتھ اسکے دماغ سے نہیں نکلتا ہے بلکہ وہ اسکے لا شعور یا تحت الشعور میں جگہ جاتا ہے۔ یہی وہ عمل اور تجربات اسکے طبع کو شکل دینے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ سیگمنڈ فرائیڈ (Sigmund Freud) کے نزدیک ایسی سوچ انسانی روے، اسکے جلالی اور جمالی طبع کیلئے ایک قالب کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ سوچ اسکے زہن سے تو شاید نکل جائے لیکن اسکی طبیعت سے کبھی وہ نکل ہی نہیں سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک انسان کے انداز گفتگو سے لیکر تنقید و شعور تک اسکی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔

‏جس طرح ایک انسان کی طبع اسکے پیش آنے والی معاملات و واقعات پر منحصر ہوتی ہے، عین اسی طرح علم و شعور کے ساتھ ساتھ وہ ایک طبع کو اپناتا ہے۔ انسان اپنی بقاء و تہزیب کی راہ میں ہمیشہ سے کوشاں رہا ہے کہ وہ اپنے لیے منہاس  القوم آرام و آسائش اور خوشحالی اور سکون لا سکے۔ جیسے جیسے انسانی تہذیب ترقی کرتی جاتی ہے، ویسے ویسے انسانی اقدار، روایات و تہزیب تبدیل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ لیکن انسانی علم و شعور سے پنپتے ہوئے طبع میں ہر دور و عہد میں ایک یگانگت اور مشترک شے ہوئی ہے۔ وہ شے ہمیشہ اپنے اوپر نا چاہنے والی روایات، ظلم و زیادتی، رسم و رواج، قانون و منشا شاہ، مزہب کے نام پر پوری قوم کو یر غمال کر کے ان سے خدا، یزدان و بنانے والے کے نام پر دولت بٹورنے کے خلاف ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعور سے لیث انسان ہمیشہ مقتدر حلقے سے تعلق رکھنے والے اختیار دار کو کبھی گوارا نہیں ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمشیہ شیخ و شاہ کی آنکھ کو کھٹکتا رہا ہے۔ شاعر اس ضمن میں لکھتا ہے

‏طبع شعور و فکر کی، زد پہ رہا ہے اختیار

‏صدیوں سے شیخ و شاہ کو ہم سے عناد ایک ہے

‏وجودیت سے تعلق رکھنے والے جین پال سارتر (Jean Paul Sartre) اور البرٹ کامیو (Albert Camus) کے مطابق ظلم، جبر و نا انصافی کو جب ایک انسان خود ہوتا ہوا دیکھتا ہے تو وہ اسکی طبع کو مستقل مزاج بناتے ہیں اور وہ خود کو اس ظالم سیاسی، سماجی یا کوئی بھی ڈھانچہ ہو، اس سے الگ کر کے اسکو ختم کر کے ایک پر آسائش، انصاف پر مبنی سیاسی یا سماجی ڈھانچے کیلئے کوشاں ہوتا ہے۔ دوسری جانب پوسٹ کولونیلزم فلاسفرز (Post-Colonialism-philosopher)، فرانز فینن (Frantz Fannon)اور ایڈورڈ سعید (Edward W. Said) یہ مانتے ہیں کہ ریاستی جبر و ظلم انسان کی طبع میں ایک خاصی سخت لاتی ہیں جو انسان کو اس ظالم چنگل سے آزاد کرانے کیلئے کوشاں ہوتی ہیں اور اس سے انقلابی تحریکیں جنم لیتی ہیں۔

‏روشن خیالی (Enlightenment) کے دور کے فلاسفرز، والٹیئر (Voltaire) اور مونٹیسکیو (Montesquie)، کا یہ ماننا ہے کہ لوگوں کو علم و شعور سے آشنا کرنا کسی بھی تہزیب کے رخ کا تعین کرنے میں نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس سے انسان سوال پوچھ کر اس ڈسپلن کے حدود کا تعین کرتے ہیں، بصورت دیگر جہاں ریاست، سیاسی ڈھانچہ یا سماجی وجود لوگوں کی رائے عامہ کے بر عکس ظلم، بر بریت اور انکے سوالات کو بارہا نظر انداز کرے تو لوگ اس نظام کو تبدیل کرنے کیلئے نہ صرف کوشاں ہوتے ہیں بلکہ وہ انقلابی تحریکوں کی بنیاد رکھتے ہیں۔ ایسی انقلابی تحریکیں جو سیاسی شعور، مشابہ اور دست اول واقعات کے مشاہدات کے نتیجے میں وجود میں آتی ہیں انکی طبع میں زیر دست ہونا نہیں بلکہ وہ ہمیشہ پر عزم اور مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہیں۔

‏چانکیہ کوٹلیہ (Chankiya Kotillya)، جو 318 قبل مسیح چندر موریا گپت (Chandra Mauriya Gupta) دور حکومت میں وزیر اعظم اور شاہ کا چیف ایڈوائزر ہوا کرتا تھا، وہ کسی بھی نا خوش گوار حالات سے نمٹنے کیلئے چار اقدامی طریقہ کار وضح کرتا ہے۔ انکے مطابق اگر کوئی شعور یافتہ شخص اگر سلطنت یا حکومت کے خلاف اسکو الٹنے کی نیت سے کھڑا ہو یا اسکی رائج کردہ قوانین سے روگردانی کا مرتکب ہو تو اسے پہلے سمجھائیں، چاہے اسکو چرب زبانی سے تعریف کر کے سمجھایا جائے یا اسکو اسکی حرکتوں کے عوض سزا اور انجام سے ڈرا کر سمجھایا جائے۔ اگر وہ اس بات سے باز نہ آئیں تو دوسرا مرحلہ اپنائیں جسکے تحت اسکو مراعات کا لالچ دیکر اپنے مقصد سے ہٹا کر اپنا آلہ کار بنایا جائے، اور اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو تیسے مرحلے میں اس تحریک کے سرکردہ لیڈران کو سزا دیکر حکومتی راستے سے ہٹایا جائے۔ لیکن اگر اس سے تحریک میں کوئی واضح فرق محسوس نا ہو اور وہ رواں دواں ہو تو اسکے بعد بلا تفریق اس تحریک سے جھڑے ہر کردار کو عبرتناک سزا کا مرتکب کیا جائے۔

‏نیکولو میکاولی (Nicolo-Micheavali) اپنی کتاب دی پرنس (the prince) میں میڈیچی (Medici) کے نام اپنے پیغامات میں یہی لکھتا ہے کہ لوگوں کو اگر قابو میں رکھنا ہے تو اسکے دو ہی طریقے ہیں، ایک بزور شمشیر جیسے کہ عثمانیہ سلطنت ہے، اس جیسے حکمرانی میں اگر کوئی پھوٹ پڑھ جائے اور عوامی ابھار نمودار ہو تو اسکو رکھنا نا ممکن ہوتا ہے۔ جبکہ دوسری طرز حکمرانی لوگوں کے دلوں پہ حکمرانی کرنا ہے جو دیر پا اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہوتی ہے۔

‏لیکن ہر دور میں جب حکمران اپنی تفویض کردہ اختار (Delegated authority) سے ماورا کسی حرکت یا قانون کو لاگو کرنے کا مرتکب ہوا ہے تو اس دور میں بھلے ہی قلیل تعداد میں لیکن ضرور ایسے شعور و فکر سے لیث انسان ہوے ہیں جنہوں نے ان سے سوالات کیے ہیں اور ان کے ظلم و جبر کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ ہر دور میں تقریبا دنیائے سلطنتوں کی تاریخ میں سارے ہی بادشاہتیں اپنے ناقدوں پر سخت رویہ رکھتے آئے ہیں لیکن اس سے کبھی بھی ان تحریکوں کو جھڑ سے اکھاڑا نہیں جا سکا ہے۔ یورپ میں درمیانہ ادوار (Medieval period) میں مارٹن لوتھر (Martin Luther) جیسا ایک شخص آتا ہے جو چرچ کے خلاف نوے سے زیادہ سوالات کی فہرست بنا کر چرچ کے خلاف اسکے اپنے ہی ستون پہ کیل سے ٹوک کر ٹانگتا ہے اور وہ ایک شخص کی تحقیق کردہ سوچ و فکر ہی ہوتی ہے کہ پورے یورپ کو رومن کیتھولک چرچ کے چنگل سے آزاد کرتا ہے۔

‏امریکہ میں انیسوئی صدی عیسوی (1864-1865 AD) میں جب ابراہیم لنکن (Abraham Lincoln) آتے ہیں تو اس وقت وہ اکیلے ایسے ریپبلکن (Republican) ہوتے ہیں کہ اس نے غلامی کے خاتمے کی ٹھان لی اور ایک سال کے اندرونی خانہ جنگی کے بعد اسے ختم کرنے میں کامیاب ہوا۔ شعور و فکر کی طبع میں ایک خوبصورت عنصر شامل ہوتی ہے کہ وہ پر کشش ہوتی ہے اور اپنے ماننے والے، سمجھنے والے کو اس حد تک اپنا عاشق بناتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے خود سے روگردانی کرنے کا مرتکب نہیں بنا سکتی ہے۔

‏ کہیں ممالک میں (spoil system) رائج ہے اسکے تحت حکومت اپنے ناقدین کو دور اور چرب زبانوں (Flattery) کو مراعات سے نوازتے ہیں۔ اور ایک رپورٹ کے مطابق جتنی مراعات، ترقی اور پروموشن کسی آفیسر یا نا تحت نوکر کو اسکی قابلیت کی بنیاد پر ملتی ہے، ٹھیک اسی طرح چرب زبانی اور چاپلوسی سے ملتی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چرب زبانی مقتدر حلقوں کو پسند ہیں اور ناقد نا پسند کیونکہ وہ انکی فطرت کے بر عکس ان سے انصاف کے طلبگار ہوتے ہیں۔ المتنبی ایک اعلی پایہ کے عرب شاعر ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ “انسان فطری طور پر نا انصافی کو پسند کرتا ہے اور اپنے مفاد اور فطرت کو ترجیح دیتا ہے، لیکن اگر آپ کسی شخص کو انصاف کرتا ہوا دیکھیں تو وہ انسانی اقدار سے اوپر ہے.” حالانکہ ایک ناقد ہی ہوتا ہے جو وہ کسی بھی ڈسپلن کے اوپر ایکپڑتال کی حیثیت رکھتا ہے جو کسی بھی شہر ڈسپلن شخص کو اس سے باہر عمل کرنے سے روکنے رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ایسی حکومتیں ڈھاتی چلی جاتی ہیں اور انکو تحریکیں ڈھا دیتی ہیں اور انکی بنیادیں ڈگمگا جاتی ہیں۔

‏نیلسن منڈیلا (Nelson Mandela) بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک انقلابی شخص ہمیشہ عملی میدان میں کار کردگی دیکھاتا ہے، اگر کسی انسان کے پاس وژن ہو اور وہ عمل نا کرے، یا وژن کے بغیر عمل کرتا رہے تو وہ نیم انقلابی شخص ہے جو کبھی اپنے منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔” اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شعور و علم مشاہدات اور تجربات کی مانند انسانی رویے میں نا صرف پختگی لاتے ہیں بلکہ اس شخص کو ایسے مضبوط اصولوں اور ضوابط کا ماننے والا بناتا ہے کہ رائج نظام, جو نا انصافی اور ظلم و جبر پر مبنی ہوں، خوف زدہ ہوکر ان کے ڈر سے ان سے نا ختم ہونے والی مد بھیڑ میں لگ جاتی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں